Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Kya Dam Banane Ka Yehi Aik Tareeqa Hai

Kya Dam Banane Ka Yehi Aik Tareeqa Hai

کیا ڈیم بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے؟

دو باتیں اب ہر ایک کو سمجھ آ رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان کو بچانا ہے، اپنے مستقبل کی حفاظت کرنی ہے تو بڑے ڈیم بنانے پڑیں گے۔ دوسرا یہ کہ عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون نہیں ملنے والا، جو کچھ کرنا ہے، خود ہی کرنا پڑے گا۔ جادو سے پیسے بنائیں یا پھرمختلف طریقوں سے اپنے وسائل بڑھائیں۔ بڑے ڈیمز کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے ہمارے اہل دانش، ماہرین برسوں بلکہ عشروں سے کہہ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پنجاب کے بیشتر اخبارنویس اور تجزیہ کاروں کی تان صرف کالا باغ ڈیم بنانے پر ٹوٹتی۔ وہ اپنے ہر تجزیے، کالم یا پروگرام میں کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو یہ سمجھانے کی سعی کرتے کہ لوگو یہ ڈیم ملک کے لئے بہت اچھا ہے، اس کی مخالفت چھوڑ دو وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا ذرا برابر بھی کسی پر اثر نہیں ہوتا۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والوں کا موقف جاننے کی ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی، ان کے تحفظات جن وجوہات کی بنا پر ہیں، کبھی وہ دور کرنے کے لئے پلان نہیں بنایا۔ ویسے بھی اب معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اسے سلجھانا شائد ممکن ہی نہیں رہا۔ اصل اہمیت ڈیم کی ہے، کالا باغ ڈیم کسی وجہ سے نہیں بن پارہا تو کوئی اور بنا لو۔ کچھ ہوتو جائے۔ ایسا کرنے کی کسی نے زحمت نہیں کی۔ ہر حکمران نے کالا باغ ڈیم کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ مجھے یاد ہے کہ دس بارہ برس پہلے اس موضوع پر کالم لکھا، جس میں سیاسی فزیبلٹی کی اصطلاح استعمال کی۔ میں نے لکھا کہ اس قسم کے بڑے پراجیکٹس کی صرف فزیکل فزیبلٹی کے ساتھ سیاسی فزیبلٹی بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانا لاکھ آسان سہی، اس کی تفصیلی فزیبلٹی رپورٹس بھی موجود ہیں، مگر اس کی سیاسی فزیبلٹی صفر بلکہ منفی میں ہے۔ اس لئے بھاشااور دیگر آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ ہمارے فورم سی این اے کے ایک ممبر واپڈا میں سینئر پوسٹ پر تھے، بعد میں پیپکو کے ایک اعلیٰ عہدے پر بھی فائز رہے۔ ایک بار فورم میں کالا باغ ڈیم پر بحث چل رہی تھی۔ میں نے ایسے ہی چونکانے کے لئے کہہ دیا کہ جو لوگ کالا باغ ڈیم کی تکرار کرتے ہیں، مجھے تو ان کی حب الوطنی پر شک ہوتا ہے۔ وہ صاحب اس پر لال پیلے ہوگئے، کہنے لگے کہ آپ نے یہ کیا بات کر دی۔ عرض کیا آپ لوگوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ کالا باغ ڈیم سردست بنانا ممکن نہیں، ایسے میں حکمرانوں کو بھاشا اور دیگر بڑے ڈیمز کی طرف کیوں نہیں راغب کرتے۔ ہماری نسل کالاباغ ڈیم بنانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس پراجیکٹ کو اگلے بیس برسوں کے لئے فریز کر دینا چاہیے، اس دوران ہم بھاشایا دیگر بڑے ڈیم بنائیں۔ بیس پچیس سال بعد اگلی نسل خود فیصلہ کر لے گی کہ کالاباغ ڈیم بنانا ہے یا نہیں۔ اس پر وہ خاصے بد مزہ ہوئے، مگر بولے کچھ نہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان بڑے ڈیمز کے حوالے سے یکسو ہوچکے ہیں، انہوں نے قوم سے خطاب میں چندے کی اپیل بھی کر دی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے، یار لوگ سوشل میڈیا پر اس تقریر کی بھد اڑا رہے ہیں۔ بیشتر وہ جنہیں عمران خان ایک آنکھنہیں بھاتا، خواہ وہ کچھ بھی اچھا کر دکھائے، انہوں نے کبھی قائل یا خوش نہیں ہونا۔ سنجیدہ ماہرین کی بات البتہ غور سے سننی چاہیے۔ بات سادہ ہے، عالمی اداروں سے قرضہ ملنا مشکل ہے۔ اپنے پاس وسائل نہیں۔ ایسے میں ایک آسان طریقہ قوم سے چندہ مانگنا لگ رہا ہے۔ اس میں بظاہر کوئی خرابی نہیں۔ غیر ممالک کے آگے کشکول پھیلانے سے بہتر ہے کہ اپنوں سے چندہ مانگا جائے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پہلے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس پر کئی حلقوں نے اعتراض کیا کہ یہ ان کا کام نہیں۔ اعتراض درست تھا، مگر جب حکومتیں بے عملی کا مظاہرہ کریں تو پھر کسی کو ایکشن لینا ہی پڑتا ہے۔ اب صورتحال مختلف ہے، وزیراعظم پاکستان ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ انہیں پورا حق حاصل ہے کہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھائیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا بڑے ڈیم بنانے کا یہی ایک طریقہ بچا ہے؟ کیا ہم نے باقی طریقے آزما لئے ہیں؟ یہ واضح کر دوں کہ میرے نزدیک بڑے ڈیم بنانے کا مقصد اتنا نیک اور اہم ہے کہ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے سپورٹ کرنا چاہیے۔ ملکی سلامتی اور بہتری ہماری انا اور سیاسی پسندناپسند سے زیادہ اہم ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم کو مگر مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ ماہرین سے قابل عمل ٹھوس تجاویز لی جائیں۔ صرف چندوں سے اتنا بڑا پراجیکٹ نہیں بن سکتا اور خدانخواستہ یہ اپیل یا مہم ناکام ہوجائے تو اس سے نہایت منفی تاثر پیدا ہوگا۔ قوم ضرور اپنا حصہ ڈالے، لیکن ایسے اقدامات کر لئے جائیں جن سے یہ اپیل یا مہم موثر اور کامیاب ہوسکے۔ ملک کے اندر اور باہر سے چندہ ہی جمع کرنا ہے تو ڈھنگ سے یہ کام کیا جائے۔ ہمارے دوست اور دانشور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اس حوالے سے چند نہایت معقول تجاویز پیش کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :" بادی النظر میں ایک عمدہ تجویز نظر آنے کے باوجود اس میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ بظاہر یہ سسٹین ایبل (Sustainable) نہیں۔ کیلکولیٹر پر یہ اندازہ لگا لینا کہ نوے لاکھ تارکین وطن ہیں اور فی کس ایک ہزار ڈالر دے رہے ہیں تو فلاں حاصل ضرب ہمارے پاس آ جائے گا، یہ محض سادہ لوحی کی بات ہو گی۔ یہ ضرور ہو سکتا ہے حکومت کو چند سو ملین ڈالر مل جائیں۔۔۔ لیکن اس سے نہ تو زرمبادلہ کے ذخائر پر کچھ خاص اثر پڑے گا اور نہ ہی ڈیم کی تعمیر کسی جانب بڑھے گی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری بھی نہیں رہتا۔ چندہ دینے والے جلد تھک جاتے ہیں۔" اگر عوام کی اس طرح سے شمولیت ضروری ہے تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ اسے ایک پارٹنرشپ کی طرح پیش کیا جاتا کہ ڈیم کے اتنے شئیرز ہیں اور ایک شئیر کی مالیت یہ ہے۔ اس کے عوض بجلی کی پیداوار سے آپ کو اتنا منافع دیا جائے گا۔ یا طویل المدتی بانڈز فلوٹ کیے جائیں جن پر منافع نہ ہو، صرف اصل رقم کی واپسی ہو، ان کی میچیورٹی کی تاریخ ڈیم کی تعمیر کے بعد کی ہو اور یکمشت نہ ہو۔ اقساط میں ہو کہ لوگوں کو ان کا پیسہ واپس مل سکے۔ عوام کی جانب سے یہ تعاون ہی بہت ہے کہ انہوں نے اپنے پیسے کی واپسی کے لیے صرف ایک قومی مقصد کے واسطے اتنا انتظار کیا۔ یاد رکھیں کہ جب بھی پیسے پر منافع یا اس کی واپسی کی امید ہو تو سرمایہ کاری کی سطح میں ڈرامائی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح آپ کم افراد سے بھی مطلوبہ رقم پوری کر سکتے ہیں۔ جب بجلی بننے لگے تو اس سے لوگوں کے پیسے واپس کریں، جیسا کہ کسی بھی اور قرض خواہ ادارے کے کرنا ہوتے ہیں۔" ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگرعوام کی مدد سے پراجیکٹس نے مکمل ہونے ہیں تو تو پھر حکومت کو خود بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ حکومت بتائے کہ اسے بجلی کے بلوں کی مد میں کیا رقم ملتی ہے اور کتنی رقم ان بلوں پر مختلف ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہوتی ہے۔ جتنی رقم ٹیکسوں کی ہے وہ سب ڈیم کی تعمیر میں جائیگی اور اس سے حکومت دیگر کاموں کے لیے کچھ نہیں منہا کریگی۔ یہ ایک بڑی رقم ہو گی اور اس رقم سے ڈیم کی تعمیر زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھ سکے گی۔" یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ڈیم کا سب سے بڑا فائدہ زرعی شعبہ کو پہنچے گا، پاکستان کی جی ڈی پی کا لگ بھگ 21 فی صد یہی شعبہ ہے۔ لیکن اس شعبہ کا قومی محصولات میں کیا حصہ ہے؟ نہ ہونے کے برابر۔ زرعی شعبہ پر اگر ٹیکس کا نفاذ سنجیدگی سے کیا جائے اور اس رقم کو بھی فی الحال ڈیم کے لیے وقف کر دیا جائے تو اس سے بھی اس قومی ہدف کے حصول میں حقیقی مدد مل سکے گی۔ ڈیم بننے سے اس شعبہ کو دہرا فائدہ ہوگا، زیادہ فصل اور سستی بجلی ان ہی کو حاصل ہو گی۔"چند تجاویز اور بھی ہیں۔۔۔ مثلاً یہ کہ نوٹ چھاپ کر ڈیم کے لیے فنڈ حاصل کیے جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں روپے کی قدر کم ہو گی اور مہنگائی بڑھے گی۔ افراط زر کے نتیجہ میں عوام خود بخود اس فنڈنگ کا حصہ بن جائیں گے۔ یاد رہے یہ سارے نوٹ ایک دن میں نہیں چھاپنے اور نہ ہی صرف نوٹ چھاپ کر کام چلانا ہے، دیگر ذرائع پر تو کام ہو ہی رہا ہو گا۔"پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم عالمی ساہوکاروں سے بات کر کے سالانہ debt servicing کو اس طرح ری شیڈول کر سکیں کہ قریب 16 ارب ڈالر کے بجائے یہ حجم 12 یا 13 ارب ڈالر ہو جائے اور اس رقم سے ہم ڈیم کی تعمیر کا کام چلا لیں۔ چین سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ برادر آپ کو ورلڈ پاور بنانے کے چکر میں ہم تو رُل گئے۔۔۔ اب 2000 ارب ڈالر کے اپنے ذخائر میں سے 22 ارب ڈالر کے دو ڈیم بنا دو ہمیں۔۔۔۔ انکا منافع تم کھاتے رہنا۔ غرضیکہ طریقے بہت ہیں ڈیم بنانے کے، سب پر کام ہونا چاہیے۔"

Check Also

Final Call Ka Nateeja Sifar

By Muhammad Riaz