کچھ نمکین کا ذکر ہوجائے
یونیورسٹی کے زمانے میں ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے۔ کھانے پینے کا ازحد شوق تھا۔ ان کا ایک مشہور قول تھا کہ جسم میں نمکین اور میٹھے کا بیلنس برقرار رکھنا بڑااہم ہے۔ موصوف ذوق شوق سے کچھ نمکین پکوان کھاتے۔ تھوڑی دیر بعد فرماتے کہ میں نمکین کو بیلنس کرنے کے لئے میٹھا کھانا چاہتا ہوں۔ جب میٹھے میں کھیر، ربڑی، آئس کریم یاگرم گرم گلاب جامن کی ایک دو پلیٹیں ہڑپ کر لیتے پھر انہیں خیال آتا کہ جسم میں میٹھے کی مقدار کچھ زیادہ ہوگئی، اسے کچھ نمکین سے بیلنس کرنا چاہیے۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اسی طرح جب کوئی خاص چیز جیسے پیڑوں والی لسی کچھ دنوں سے نہ پی ہو تو فرماتے، میرے جسم میں پیڑوں والی لسی کی کمی ہوگئی ہے۔ جب ایسا ہوتو ان کے رفقا کی یہ اصولی، اخلاقی ذمہ داری تھی کہ میٹھے، نمکین کے تناسب کو درست کیا جائے۔
گزشتہ کالم حلوہ جات اور میٹھی ڈشز پر لکھا تھا۔ آج بیلنس کرنے کے لئے نمکین کا ذکر کرتے ہیں۔ جب بائیس تیئس سال پہلے لاہور آنا ہواتوانہی دنوں ایک انگریزی اخبار نے فل پیج پر مشہور لاہوری ڈشز کے حوالے سے فیچر شائع کیا۔ ہم نے وہ صفحہ سنبھال لیا۔ لاہور کلچر، ادب، صحافت کی طرح کھانوں کا بھی مرکز ہے۔ اس فیچرسے پتہ چلا کہ لاہور میں نہاری کے تین بہترین مرکز ہیں۔ مزنگ چونگی کی مشہور نہاری، پیسہ اخبارسٹریٹ کی نہاری اورلوہاری دروازے میں دلی والوں کی نہاری۔ تجربات سے پتہ چلا کہ مزنگ چونگی کی نہاری ان میں منفرد ہے۔ یہاں خاص انداز کی خمیری روٹی ملتی ہے۔ فرائی نہاری، ساتھ ادرک وہرے مسالہ(سبز دھنیا، کتری ہوئی ہری مرچ وغیرہ) کی پلیٹ اور تازہ اتری کڑک خمیری روٹی?اگر من چاہے تو شِیر مال بھی منگوا لیا جائے۔ ہم تو بیکری سے ملنے والے بن کی شکل میں ذرا بڑی گول بریڈ ہی کو شیر مال سمجھتے تھے۔ مزنگ نہاری والے شیر مال کو کھا کر پتا چلا کہ یہ واقعی شاہی دسترخوان کا حصہ ہوگا۔ تافتان کا بھی بہت ذکر سنا تھا، ایک بار یہیں سے کھایا۔ خوب ہے، مگر عام نہیں ملتا۔ اردوبازار میں پیسہ اخبار والی گلی میں نہاری کی ایک اور مشہور دکان تھی۔ اب تو ان کے بھی شہر میں کئی مرکز بن گئے ہیں۔ ادھر لوہاری گیٹ کے باہر اور اندر دنوں جگہوں پر دہلی کی اصل نہاری کے دعوے دار بیٹھے ہیں۔ ایک زمانے میں مشہور تھی، لگتا ہے نئی نسل ورثہ نہ سنبھال پائی۔
لوہاری سے بھاٹی گیٹ کی طرف جائیں تو سڑک کی دوسری طرف حلیم کی تین چار دکانیں ہیں۔ سب حاجی ہونے بلکہ بڑے حاجی صاحب ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اصلی اور پرانی دکان ہونے کے دعوے دار۔ لاہور میں ایسا تنازع جگہ جگہ ملے گا۔ لاہوریوں کو مگر ذائقے میں بے وقوف بنانا آسان نہیں۔ جہاں رش زیادہ ہو، آنکھیں بند کر کے وہاں چلے جانا چاہیے۔ ماڈل ٹائون ڈی بلاک کے کباب مشہور ہیں۔ واقعی ان کا اپنا ہی منفرد ذائقہ ہے۔ چار پانچ ایک ہی نام کی دکانیں ہیں۔ اصل وہی جہاں دس پندرہ منٹ تک آ پ کا آرڈر ہی نہ لیا جا سکے۔ یہی معاملہ ہریسے کا ہے۔ لاہور میں امرتسری کشمیریوں کا ہریسہ مشہور ہے۔ ہریسہ کا ذائقہ بتانا ممکن نہیں، کھانے سے ہی اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایک شاندار روایتی کشمیری ڈش ہے، سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں اسے کھانا موسم کا لطف بڑھا دیتا ہے۔ یہ گوشت اور مختلف دالوں کے ساتھ بنتا ہے، رات بھر گھنٹوں اس پر محنت ہوتی ہے۔ لکشمی چوک سے ایک سڑک میوہسپتال چوک کی طرف جاتی ہے، اسے نسبت روڈ کہتے ہیں۔ اسی سڑک پر نسبت چوک سے تھوڑا پہلے دو تین دکانیں ہیں، ان میں آخری دکان پر رش سب سے زیادہ ہے۔ سب کے سب قدیمی امرتسری ہریسہ کے دعوے دار ہیں۔ خلق خدا سے فیصلہ کرائیں، جہاں رش زیادہ ہو، بے دھڑک چلے جائیں، کامیاب ٹھیریں گے۔
اُس فیچر میں کباب کے تین چار مشہور سپاٹ بتائے گئے تھے۔ بتایا گیا کہ موچی دروازہ میں سائیں کے سیخ کباب مشہور ہیں، خاصے وزنی اور بڑے سیخ کباب ملتے ہیں۔ ڈھونڈتا ہوا پہنچا، اچھے لگے۔ بعد میں ایک بار گیا تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب انتقال کر گئے ہیں، اڈہ ختم ہوگیا۔ موچی دروازہ ایک زمانے میں سیاست کا مرکز تھا، مگر کھانے پینے کے بھی کئی اہم مرکز وہاں موجود ہیں۔ لال کھوہ کی کھوئے والی برفی مشہور ہے۔ دو بڑی دکانیں ہیں، جو شہر میں پھیل چکی ہیں، برفی کھا کر آدمی بھول نہیں سکتا۔ اسی طرح شاہ عالمی کی ازحد مشہور نان خطائی اگر کسی نے نہیں کھائی تو اپنے ساتھ ظلم ہی کیا۔ باداموں بھری نان خطائی کا کوئی دوسرا مقابلہ ہی نہیں۔ خیریہ تو اچانک ہی نمکین سے میٹھا ٹپک پڑا، کباب کی بات ہو رہی تھی۔ ٹمپل روڈ پرکچھ مختلف انداز کے کباب کی ایک سستی، مگر اچھی آپشن بھی موجود ہے۔
کڑاہی گوشت کی اب تو خیر بہت سی آپشنز آ گئی ہیں۔ ایک زمانے میں سب سے اہم لکشمی چوک میں کشمیریوں کی دکان تھی۔ اب وہاں کئی مراکز بن گئے ہیں۔ سب کا اپنا ذائقہ ہے۔ وہیں لکشمی چوک ہی میں ٹکیوں والے ہیں جو مکھن میں تل کر برجی یا خاگینہ سا بنا دیتے ہیں، ساتھ توے والی پتلی بڑی روٹی، پیاز، ٹماٹر کا سلاد، رائتہ۔ سستی مگر لذیذ آپشن۔ پہلے جیل روڈکے آغاز ہی میں کڑاہی، تکہ کی ایک مشہور دکان تھی۔ اب تو خیر شہر میں بے شمار نئی آپشنز آ گئی ہیں۔ پشاور کی نمک منڈی سے نئے ذائقے لاہور آ گئے۔ قبائل اور مختلف قبائلی ناموں کے مشہور سپاٹ جگہ جگہ موجود ہیں۔ ایم ایم عالم روڈ، جوہر ٹائون، پی آئی اے روڈ، شالیمار لنک روڈ اور بہت سی جگہوں پر ایک طرح کی فوڈ سٹریٹس بن گئی ہیں، کھانوں کے تمام مشہور برینڈوہاں جمع ہوچکے ہیں۔
لاہور کے پائے بھی مشہور ہیں۔ لاہور آ کر پہلی بار بونگ پائے کھائے۔ بونگ دراصل مچھلی کی بوٹی یا لال بوٹی ہے۔ اس نام سے الگ بونگ شوربہ بھی ملتا ہے او رپائے کے ساتھ بھی۔ پائے کے نام ہی سے لاہور کے ایک بہت مشہورپائے والے کا خیال آتا ہے۔ لاہور میں بعض گمنام سپاٹس سے بھی اچھے پائے مل جاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر دھرم پورہ سے صدر چوک جانے والی سڑک پر پائے کی ایک مشہور دکان کا ذائقہ اچھا لگا۔ دیسی بکری کے پائے اور بڑے پائے دونوں آپشن موجود ہیں۔ بکرے کے پائے کے مداح بہت سے ہیں، مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ شوربے کے ایک پیالے میں لمبی سی خالی ہڈی رکھنے کا کیا جواز؟ بڑے پائے میں البتہ کمال قسم کے پائے اور مشک کی بوٹیاں مل سکتی ہیں۔ گرما گرم تلوں والے نان، پائے کے گاڑھے شوربے پر کالی مرچ چھڑک کر کھایا جائے، اس کی بوٹیاں نکال کر الگ رکھ لی جائے، اگر ہمت ہو (یعنی کولیسٹرول وغیرہ کنٹرول میں ہو تو)مخ یعنی نلی کا گودا بھی ڈلوا لیا جائے، ایک زمانے میں ہم فرائی مغز کی پلیٹ بھی ساتھ بنواتے، اب تو کولیسٹرول کے اس عظیم خزانے کو دیکھ کر ہی ڈر جاتے ہیں۔ بھاپ اڑاتے پائے کا شوربہ پینے کا بھی اپنا لطف ہے۔ سخت ترین سردی میں پسینہ نہ آجائے تو پائے والوں سے پیسے واپس مانگ لینے چاہئیں۔ شہر بہاولپور میں کیپٹن کے پائے بہت مشہور ہیں۔ بہاولپور میں ایک پرانا مرکز کھوتا قصائی کے پائے کا بھی ہے۔ سنا ہے کہ اس کے باپ کوویسے مذاق کے طور پر کھوتا کہہ دیتے تھے، ورنہ اس غریب پر کبھی کھوتا کھلانے کا الزام نہیں آیا۔ وہاں اگر کوئی جائے تو بنگالی نام کے ملازم سے گپ شپ ضرور کرے، دلچسپ شخصیت ہے، منٹو کے کسی افسانے کا کردار۔
ہم سرائیکی پٹھانوں کے ہاں گھروں میں سری پائے کے ساتھ صرف سری پکانے کا بھی رواج ہے، مغز الگ سے بھنا ہوا بنایا جائے۔ سِری کا سالن غضب کا بنتا ہے، ساتھ توے سے اترتی گرم روٹی ہو تو آدمی گنتی سے بھول جائے۔ لاہور میں پائے کے علاوہ "کَھد "کا علم ہوا تو گوالمنڈی میں ڈھونڈتا ہوا ایک سپاٹ پر صرف کھد کھانے گیا۔ مچھلی کے لاہور کے تین روایتی سپاٹ ہیں، گوالمنڈی کی مشہوربیسن اورکڑھائو والی بام، رہو مچھلی جوآج کل جگہ جگہ دستیاب ہے، پہلے صرف گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ میں دکان تھی۔ گڑھی شاہومیں تلی مچھلی کا روایتی سپاٹ جبکہ مزنگ چونگی پردارالماہی کی مچھلی، یہ اب قذافی سٹیڈیم منتقل ہوگئی ہے۔ مچھلی کے اور بھی سپاٹ بن گئے ہیں۔ مغلپورہ لال پل میں برگر کی ایک چھوٹی دکان سے شروع ہونے والا کام ازحد پھیل چکا ہے، فش، گرلڈ فش، دنبہ کڑاہی، پزا، کباب وغیرہ۔ لاہور میں کھانے کا کاروبار خوب ہے۔ اگر معیار پر توجہ دی جائے توبے حد چلتا ہے۔ لوگ بیس تیس میل دور سے سفر کر کے وہاں جاتے ہیں۔ ہارون الرشید صاحب نے ایک بار اپنی پسندیدہ چند ڈشز بتائیں۔ ایبٹ روڈ کی چانپیں، نیلا گنبد کے چنے، شیزان فورٹریس کا دیسی چوزے والا شوربہ وغیرہ۔ میکلوڈ روڈ، لاہور ہوٹل کے پاس پائے وغیرہ کا ایک ہوٹل ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید نے اپنی آپ بیتی میں اسے اپنا پسندیدہ ہوٹل قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ جب بھی لاہور جائوں، وہاں جا کر ضرور کھاتا ہوں۔ ایبٹ روڈ پر ہی چنے کے دو تین سپاٹ بہت مشہور ہیں اور آگے لکشمی چوک والے کونے پر امرتسری دال چاول کی ساٹھ سالہ پرانی دکان۔ لاہور میں چکڑ چھولے کے نام سے منفرد انداز کے چنے ملتے ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی صاحب نے ایک بار ہال روڈ کے چنوں کا ذکر کیا تھاجو انہوں نے حامد میر کے ساتھ مل کر کھائے۔ کھانے پینے کی یہ داستان ِلذیز خاصی طویل ہے۔ یہی یخ بستہ دن ان گرما گرم پکوانوں کے ہیں۔