جماعت اسلامی کیا سوچ رہی ہے؟ (2)
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی سینئر صحافیوں سے گفتگو کے حوالے سے پچھلی نشست میں بات ہوئی۔ حافظ نعیم صاحب کی گفتگو میں مجھے اندازہ ہوا کہ سردست جماعت اسلامی کی پالیسی میں کسی بنیادی نوعیت کی تبدیلی نہیں آ رہی یا کہہ لیں کہ سردست یہ ممکن نہیں۔
جماعت اسلامی کی یہ خوبی تو بہرحال ہے کہ ان کے فیصلے اجتماعی طور پر ہوتے ہیں۔ جماعت کے سیٹ آپ میں صرف مرکزی امیر جماعت اسلامی کو اراکین جماعت براہ راست منتخب کرتے ہیں یا مرکزی شوریٰ کا انتخاب بھی یہی اراکین کرتے ہیں۔ یہ دونوں منتخب اور کم وبیش ایک جیسی اہمیت رکھنے والے پلیٹ فارم ہیں۔ جماعت کی پالیسیوں میں امیر جماعت کی شوریٰ کے ساتھ مشاورت ضروری ہے۔ اسی لئے جماعت کی جو بھی اچھی بری پالیسی چل رہی ہوتی، وہ پارٹی کی اجتماعی سوچ کا عکس ہے۔ فوری تبدیلی یا یوٹرن لینا آسان نہیں۔ امیر جماعت البتہ ممکن ہے اپنی مضبوط شخصیت یا جارحانہ انداز سے پالیسی عملدرآمدکرتے ہوئے کچھ فرق ڈال دے۔
یہ سب اس لئے بیان کیا کہ میری مشاہدے اور معلومات کے مطابق جماعت اسلامی کے اندر ایک مضبوط اور گہری سوچ پائی جاتی ہے کہ آئندہ کسی انتخابی اتحاد میں شامل نہیں ہونا۔ جماعت کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اتحادوں کی سیاست نے نقصان پہنچایا اور ہم صرف استعمال ہی ہوئے۔ سب سے زیادہ ناگوار اور تلخ تجربہ انہیں اسلامی جمہوری اتحاد کا ہوا، جس میں وہ بڑے ذوق شوق سے مسلم لیگ (ن)کے ساتھ شامل ہوئے، انہیں کچھ زیادہ فوائد بھی حاصل نہیں ہوئے، ایک آدھ وزارت ہی لی۔ نقصان یہ ہوا کہ جب اتحاد سے الگ ہوئے توجماعت کے حامیوں اور ہمدردوں کا ایک بڑا حصہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی رہ گیا۔ ایم ایم اے کے پہلے دور میں (2002-07)جماعت کو کسی حد تک فائدہ ہوا، مگر اس حوالے سے بھی وہ جے یوآئی سے شاکی رہے ہیں، دوسری شمولیت(2018) تو ایسا ناخوشگوار تجربہ تھا کہ چند ماہ میں باہر آنا پڑا۔
دوسرا تاثر مجھے یہ ملا کہ جماعت اسلامی اپنے آپ کو تحریک انصاف سے بریکٹ نہیں کرنا چاہتی۔ حافظ نعیم نے ینئر صحافیوں سے گفتگو کی نشست میں بھی واضح کر دیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان کے مطابق جماعت اسلامی اپنے پلیٹ فارم سے اپوزیشن کی سیاست کرے گی، البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی ایشو پردیگر اپوزیشن کے ساتھ مل کر مشترکہ بیان جاری کر دیا جائے۔
حافظ نعیم البتہ تحریک انصا ف کے خلاف کچھ بھی نہیں کہنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے دو تین باراعتراف کیا کہ تحریک انصاف الیکشن جیت گئی تھی، اسے دو تہائی اکثریت بھی مل گئی، مگر ان سے الیکشن چھین لیا گیا۔ ایک بار یہ بھی کہا کہ اب صرف ایک ہی جماعت تحریک انصاف رہ گئی، باقی جماعتیں (ن لیگ، پیپلزپارٹی وغیرہ)توسکڑ کر چھوٹی ہوگئی ہیں۔ ن لیگ کے بارے میں انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا وہ ایک طرح سے ختم ہوگئی ہے۔ میں نے دل میں سوچایعنی ماڈرن سلینگ کے مطابق خلاص۔ جب حافظ صاحب سے دو تین بار تحریک انصاف سے اتحادنہ کرنے کے موقف پر بار بار سوال ہو اتوجماعت کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے اشارتاً کہا کہ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہم نہیں بتانا چاہتے۔ حافظ نعیم نے اس پر کہا، دیکھیں تحریک انصاف والے پھنسے ہوئے ہیں، انہیں ہرایا گیا، ان کے رہنما جیل میں ہیں، ان پر مقدمات ہیں، اس لئے ہم ان کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتے، ایک طرح سے ہم ان کی سپورٹ ہی کر رہے ہیں۔
حافظ صاحب نے پھر بتایا کہ کراچی کے کئی حلقوں کے حوالے سے فارم پنتالیس جماعت کے امیدواروں نے تحریک انصاف کو فراہم کئے، کیونکہ ان کے پاس تو بہت کم فارم پنتالیس تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے کراچی کے ڈاکٹر اسامہ رضی (جنہیں اب نائب امیر جماعت بنایا گیا)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو عدالت میں بیان حلفی تحریک انصاف کے حق میں دیا ہے، ان کے حلقے سے انصافین امیدوار کے ایک لاکھ دس ہزار ووٹ کو گیارہ ہزار بنایا گیا اور ایم کیو ایم کے دس پندرہ ہزار والے کو ایک لاکھ پندرہ بنا دیا گیا۔
حافظ نعیم بہت زیادہ پرامید تھے کہ وہ ایشوکی بنیاد پر سیاست کریں گے، مطالباتی سیاست کرکے عوام کی آواز بنیں گے۔ کسانوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھائیں گے، مزدور کی نمائندگی، طلبہ کے لئے، مہنگی تعلیم کے لئے بات کریں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جماعت اسلامی میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک چلانے کی صلاحیت ہے اور وہ ایسا کرکے دکھائیں گے۔ اپنے سامنے بیٹھے صحافیوں کے چہروں پر بے یقینی کا تاثر دیکھ کر وہ تیقن سے بولے، ہم ان شااللہ کرکے دکھائیں گے۔
دوران گفتگو حافظ نعیم نے یہ بھی کہا کہ جولوگ اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ اتحادبنا رہے ہیں، ان سے دو سوالات ہمارے بھی ہیں۔ پہلا یہ کہ آخر یہ سب پی ڈی ایم کا حصہ کیوں بنے تھے؟ انہوں نے رجیم چینج میں حصہ کیوں لیا؟ دوسرا یہ کہ کس بات پر یہ احتجاج کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف تو چلو جیتی ہوئی ہے، اس سے الیکشن چھینا گیا۔ یہ لوگ تو ہار گئے ہیں، یہ احتجاج اس بات پر کر رہے ہیں کہ انہیں فارم سنتالیس کی بنیاد پر کیوں نہیں جتوایا گیا؟ جیسا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی یا ایم کیو ایم کو جتوایا گیا؟
میں نے اپنی باری پر دو سوال کئے، پوچھا کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ الگ الگ پلیٹ فارم پر سیاست کریں گے تو پاکستانی تاریخ میں تو ہمیشہ اپوزیشن کے اتحاد ہی بنے اور کامیاب ہوئے ہیں، الگ الگ احتجاجی سیاست سے مجموعی بھرپور تاثر کیسے بنے گا؟ لاہور میں احتجاج کرنا ہے تو کیا تحریک انصاف لبرٹی چوک میں اور جماعت اسلامی اچھرہ میں احتجاج کرتے گی، تیسری اپوزیشن پارٹی کسی اور جگہ؟ اس سے کیا امپیکٹ پڑے گا؟
میں نے پھر پوچھا، آپ نے جو دو سوال کئے ہیں وہ درحقیقت کس سے کئے؟ تحریک انصاف کے ساتھ پانچ رکنی اتحاد میں دو تو ان کے اپنے اتحادی سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین ہیں جبکہ ایک محمود اچکزئی صاحب کی پارٹی پختون خوا میپ اور دوسری اختر مینگل کی بی این پی ہے۔ ان پر یہ طنز درست نہیں بنتا کیونکہ یہ دونوں بلوچستان میں" لوزر" نہیں، قطعیت اور حتمی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہار گئے ہیں کیونکہ وہاں کئی نتائج مشکوک ہیں۔ البتہ اگر مولانا فضل الرحمن کی طرف اشارہ ہے تب دوسری بات ہے کیونکہ وہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی بڑی لہر کا نشانہ بنے اور بہت بری طرح ہارے ہیں۔ تواپنا اعتراض واضح کر دیں۔
حافظ نعیم الرحمن اس پر مسکرائے اور بولے چلیں، مولانا سے صرف ایک سوال کر لیں (رجیم چینج میں حصہ لینے والا)۔ پھر کہنے لگے، مولانا بڑے تجربہ کار سیاستدان ہیں، ہم ان کے مقابلے میں طفل مکتب، مگر بہرحال یہ سوال تو بنتا ہے کہ مولانا اس وقت حکومت بدلنے کے کھیل میں کیوں شریک ہوئے؟ حافظ نعیم کا کہنا تھا، ہمارا مطالبہ یہ نہیں کہ جماعت اسلامی کو نواز ا جائے، ہم کہتے ہیں کہ ایک کمیشن بنے جو فارم پنتالیس کے مطابق نتائج مرتب کر دے جو کہ قانونی اور اصولی پوزیشن ہے۔ جبکہ یہ لوگ ایسا نہیں کر رہے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے اس پر نکتہ اٹھایا کہ مولانا کہتے ہیں مجھے خیبر پختون خوا میں ہرایا گیا ہے۔ حافظ نعیم برجستہ بولے، تو پھر مولانا فارم پنتالیس دکھائیں ناں۔ وہ فارم پنتالیس کی بنیاد پر اعتراض کریں تب ہی ٹھیک ہوگا۔
میرے پہلے سوال پر حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں بہت کچھ اب نیا اور مختلف ہوا ہے۔ بدلتے حالات میں جماعت بھی اتحادوں کا حصہ بننے کے بجائے اپنے پلیٹ فارم، اپنے نشان ترازو پر سیاست کرے گی، اپنے ووٹر کو کنفیوز نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی مثال دی کہ ہم نے ماضی میں ایسا کیا ہے۔ ارشاد احمد عارف صاحب نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پھر آپ نے اس سیاست کانتیجہ بھی دیکھ لیا ہے کہ پندرہ سال سے حسینہ واجد بیٹھی ہوئی ہے، آپ لوگ انہیں ہٹا نہیں سکے۔ حافظ نعیم کہنے لگے کہ نہیں میں اس سے پہلے کی بات کررہا ہوں۔ ارشاد احمد عارف بولے، تب تو آپ لوگ خالدہ ضیا کے ساتھ مل کر سیاست کر رہے تھے۔ حافظ نعیم قدرے زچ ہو کر بولے، نہیں اس سے بھی پہلے کی بات ہے۔
امیر جماعت کو یوں پھنسے دیکھ کران کے کسی ساتھی کی آواز آئی، حسین ارشاد کے دورمیں (80ء کے عشرے میں) ایسا ہوا۔ ادھر امیر العظیم بھی اپنے امیر جماعت کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے نرمی سے کہا، امیر صاحب کا موقف آگیا ہے، اتفاق اختلاف آپ کا حق ہے۔ یوں موضوع بدل گیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ حافظ صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ 2024ء میں آپ 1980ء کے عشرے کی سیاست کرنے جا رہے ہیں، کیا یہ دانشمندانہ فیصلہ ہوگا؟ پھر سوچا جانے دیں۔ حافظ نعیم الرحمن اپنی اس نشست میں ایک اور مقام پر بھی پھنس گئے اور کسی قدر زچ (Irritate)بھی ہوئے، اس حد تک کہ میں نے سوچا جماعت کو اس حوالے سے اپنا مضبوط بیانیہ بنانا چاہیے، ایسے سوالات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ وہ کون سا سوال تھا، اس کی تفصیل ان شاللہ کل۔
(جاری ہے)