عمران خان کورعایت نہیں مل سکتی
عمران خان کی حکومت کے شروع کے دن ہیں۔ پارلیمانی روایت کے مطابق پہلے سو دن یعنی سوا تین ماہ ہنی مون پیریڈ سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ، انگلینڈ جیسے جمہوری ممالک میں، جہاں پریس بہت طاقتور اور سیاسی روایات جاندار ہیں، وہاں بھی تجزیہ کار، میڈیا اور اپوزیشن جماعتیں شروع کے تین ماہ سخت تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ سیاسی ہنی مون پیریڈ ختم ہوجانے کے بعد یہ رعایت ختم ہوجاتی ہے اور پھر ہر غلطی کا بے رحمی سے احتساب کیا جاتا ہے۔ عمران خان کو حلف اٹھائے ابھی صرف دس دن ہوئے ہیں اور ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ عمران خان کا واسطہ ایک سخت گیر طاقتور اپوزیشن سے ہے، وہ جماعتیں جن کے ساتھ عمران نے کبھی رعایت نہیں برتی، اب وہ کیوں فراخ دل بنیں گی؟ رہا میڈیا توالیکٹرانک میڈیا کوروز کوئی گرماگرم ایشو درکار ہے۔ سیاست ہمارے ہاں ہاٹ کیک کی طرح بکتی ہے اور حکومتوں پر تنقید پسند کی جاتی ہے۔ تیسرا اور سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عمران خان ہائی مورل گرائونڈز پر کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں بڑے بڑے دعوے کئے، انتخابی مہم میں بلکہ الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر اور پھر وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد قوم سے خطاب میں بڑی بڑی باتیں اور وعدے کئے۔ اتنے بلند اخلاقی نعروں، وعدوں اور کمٹمنٹس کے بعد لیڈرمعمولی سی رعایت بھی نہیں مانگ سکتا۔ اس نے خود ہی توقعات کا پیمانہ غیر معمولی بلند کر دیا ہے، اب ان پر پورا اترنا اس کی ذمہ داری بلکہ مجبوری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے بعض اعلانات چونکا دینے والے کئے۔ وزیراعظم، وزرااعلیٰ اور ارکان پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کا اعلان غیر معمولی ہے۔ اگر اس پر سختی سے عمل ہوا تو یقینا ایک نئی، خوشگوار روایت قائم ہوگی۔ صوابدیدی فنڈز میں اضافہ کرنے اور اسے بے رحمی سے استعمال کرنے کی روایت میاں نواز شریف نے ڈالی۔ کہا جاتا ہے کہ 85ء میں وزیراعلیٰ کا صوابدیدی فنڈ صرف دس ہزار تھا۔ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے اس فنڈ کو پچاس ہزار کر دیا۔ بعد میں وہ جب وزیراعظم بنے، تب اس فنڈ پر قدغن سرے سے اٹھا دی گئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پچھلے برسوں میں وزراعظم اکیس ارب سالانہ کا صوابدیدی فنڈ استعمال کرتا رہا۔ یہ فنڈ زیادہ تر سیاسی رشوت کے لئے ہی برتا جاتا ہے، اس پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں۔ قومی خزانے سے اتنی بڑی رقم کا یوں بے محابہ استعمال غلط ہے۔ سابقہ حکومتیں بھی صوابدیدی فنڈ ختم کرنے کے اعلانات کرتی رہیں، مگر عملاً اس میں اضافہ ہی ہوا۔ عمران خان اگر اسے ختم کرنے کے فیصلے پر قائم رہیں تو اچھی روایت پیدا ہوگی۔ اسی طرح بیرون ممالک مختصر وفود بھیجنے، سرکاری تقریبات میں کھابہ کلچر کا خاتمہ، حکومتی اور وزارتی سطح پر سادگی کا فروغ اچھی روایات ہیں۔ انہیں مستحکم ہونا چاہیے۔ میں ان تجزیہ کاروں سے اتفاق نہیں کرتا، جن کے خیال میں ایسا کرنے سے معمولی بچت ہوگی۔ پہلی بات تو یہ کہ بچت اتنی معمولی نہیں۔ کروڑوں اور اربوں کی بچت کو کون معمولی کہہ سکتا ہے؟ پھر سوال بچت کا نہیں، وہ تو دوسرے نمبر پر آتی ہے، اصل اہمیت یہ بتانا ہے کہ حکمران اللوں تللوں پر یقین نہیں رکھتا اور عوام کے پیسوں کی اہمیت جانتا اور مانتا ہے۔ یہ وہ کلچر ہے جو ہمیں مغرب میں تو نظر آئے گا، پاکستان جیسے ممالک میں اس کا وجود نہیں۔ ہمارے حکمران قومی خزانے کو مال مفت سمجھ کر لٹاتے رہے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کسی شاہانہ مزاج حکمران کے ناشتے یا ڈنر کی کسی خاص ڈش کے لئے سرکاری جہاز اسلام آباد سے لاہور آیا اور پھر وہ لے جا کر صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی۔ عمران خان اگر اپنی حکومت میں سادگی قائم کرتے اور اس کلچر کو نیچے تک رائج کرتے ہیں تو اسے سراہنا چاہیے۔ تاہم ایک اور پہلو ایسا ہے جس پر وزیراعظم کو غور کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے الیکشن کے بعد بنی گالہ سے اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم ہائوس میں رہائش نہ رکھنے، اسے پبلک یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، پنجاب اور کے پی کے حوالے سے بھی یہی باتیں کی گئیں۔ اس قسم کے جذباتی اعلانات سے پہلے اگر وہ کچھ ہوم ورک کر لیتے تو شائد اس کی نوبت نہ آتی۔ وزیراعظم، وزرااعلیٰ ہائوسز ایک خاص ڈیزائن اور مقصد کے لئے بنائے جاتے ہیں، وہاں پر تعلیمی ادارے بنانا اول تو ممکن نہیں، اگر کسی طرح ہو بھی جائے تو آج کل کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اتنے ہائی سیکیورٹی زون میں کس طرح روزانہ ہزاروں طلبہ کو آنے جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ ان اعلانات کے پیچھے نیت خواہ کتنی اچھی ہو، ان پر عمل درآمدبڑا مشکل ہے۔ اب عمران خان کے لئے مشکل یہ ہوگی کہ پیچھے کس طرح ہٹیں؟ میڈیا بھد اڑائے گا اور اپوزیشن یوٹرن خان کی پھبتی کسے گی۔ عمران خان کی جانب سے اہم تقرر ہوچکے، حکومت سازی کا عمل بھی تقریباً مکمل ہوگیا ہے۔ اس پورے پراسیس میں کوئی غیر معمولی یا انقلابی عنصر تو نظر نہیں آیا۔ ان کے اکثر فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ مناسب یا اوسط درجے کا کہا جا سکتا ہے۔ وفاقی کابینہ مناسب ہے، انہوں نے اپنے تجربہ کار ساتھیوں اور الیکٹ ایبلز کو ترجیح دی۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ چار پانچ نوجوان وزرا مملکت بنا دئیے جاتے جس سے کابینہ کا سافٹ تاثر بنتا۔ فیصل آباد سے فرخ حبیب، ڈی جی خان سے زرتاج گل، لاہور سے بیرسٹر حماد اظہر، سوات سے مراد سعید وغیرہ کو وزارتیں دینے کی خبریں آتی رہیں، بعد میں شائد وزارت ملے، لیکن اگر انہیں پہلے مرحلے ہی میں وزرا مملکت بنا دیا جاتا تو تنقید نسبتا ً کم ہوجاتی کہ یہ سب نئے، فریش چہرے ہونے کے ساتھ تحریک انصاف کی اپنی پروڈکشن ہیں۔ ان سب نے تحریک انصاف ہی سے سیاست شروع کی اور نظریاتی رنگ ان میں غالب ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ق لیگ یا پیپلزپارٹی سے آئے ہیں۔ کے پی میں بھی وزیراعلیٰ کے حوالے سے اوسط درجے کا فیصلہ ہوا ہے۔ محمود خان کو اپنی صلاحیتیں ابھی تسلیم کرانی ہیں، ضروری نہیں کہ وہ توقعات پر پورا اتریں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا فیصلہ خاصا کمزور رہا۔ اگرچہ سرائیکی علاقے سے عثمان بزدار کا تعلق ہے، مگر سرائیکی قوم پرست بھی اس فیصلے سے کچھ زیادہ خوش نہیں پائے گئے۔ ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی، وہ کہنے لگے، " مجھے تو یہ سرائیکیوں کے خلاف سازش لگتی ہے، عمران خان نے چن کر سرائیکی علاقے کا سب سے کمزور، غیر پرکشش اور ڈھیلا ڈھالا رکن اسمبلی منتخب کیا ہے، جس سے سرائیکی لیڈروں کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اگرحسنین دریشک، محمد خان لغاری یا نئے صوبائی وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت ہی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہوتا تو یہ اپنی سمارٹ شخصیت، مستعدی اور حاضر جوابی سے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں نوجوان سرائیکی قیادت کے حوالے سے اچھا تاثر بنا پاتے۔"اس سرائیکی قوم پرست دوست کو تو میں نے یہ کہہ کر خاموش کر ادیا کہ آپ لوگ کبھی مطمئن نہیں ہوتے، مگر سچی بات ہے ان کی باتوں میں وزن محسوس ہوا۔ اب یہ تو عمران خان ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی سیاسی دانش کی بنا پر کیا یا پھر خالصتاً "روحانی" رہنمائی ہی کارفرما تھی۔ شروع میں یہ تاثر تھا کہ شائد طاقتور حلقوں کی جانب سے یہ نام دیا گیا، اس کی تردید ہوگئی، پھر جہانگیر ترین کو عثمان بزدار کا مینٹور اور سرپرست کہا گیا۔ عارف نظامی جیسے باخبر سینئر صحافی، جن کے جہانگیر ترین سے قریبی مراسم ہیں، انہوں نے قطعیت سے اس کی تردید کی ہے کہ جہانگیر ترین کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ بزدار صاحب اس منصب کو چیلنج کے طور پر لیتے ہوئے کس حد تک اپنا انتخاب درست ثابت کرتے ہیں؟ پنجاب اور کے پی کی صوبائی کابینہ کے لئے ان صوبوں کے وزراعلیٰ کا بنی گالہ جانا بھی نامناسب تھا۔ ان اہم عہدوں کی بے توقیری ہوئی اور اسلام آباد سے صوبے چلانے کا تاثر ملا۔ خان صاحب خود لاہور یا پشاور چلے جاتے تو کیا تھا؟ عمران خان کی گزشتہ روز کی جانے والی اہم تقرریوں پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ انہوں نے بعض ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا، جو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے قریبی ساتھی تھے، جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، نیب ان کی تحقیقات کر رہی ہے۔ خان صاحب کو سوچنا ہوگا کہ اگر ڈیلیور کرنا ہے تو اہم فیصلے بھی انہیں خود ہی کرنا ہوں گے۔ چودھری برادران یا کسی دوسرے گروپ کو خوش کرنے کے چکر میں وہ اپنی صوبائی حکومت کو کمزور کر دیں گے۔ صوبائی وزارت خزانہ کی ذمہ داری بھی ناتجربہ کار ہاشم جواں بخت کی جگہ تجربہ کار حسنین دریشک کو نہ دینے کا فیصلہ سمجھ نہیں آیا۔ حسنین دریشک پانچ سال وزیرخزانہ رہ چکے ہیں، پڑھے لکھے، صاف ستھرے شخص ہیں، انہیں وزارت دی جا رہی ہے، بہتر ہوتا کہ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ عمران خان کو ابھی وقت ملنا چاہیے، صرف دس گیارہ دن میں کوئی رائے نہیں دی جا سکتی، مگر ان کی حکومت پر گرفت مضبوط نظر نہیں آ رہی۔ ان کی ناتجربہ کاری اور اہل لوگوں کو مشاورت میں شامل نہ کرنا شائد اس کی وجہ ہے۔ ہماری نیک تمنائیں خان صاحب کے ساتھ ہیں، مگر وہ یاد رکھیں کہ انہیں رعایت نہیں مل سکتی۔ پہلے دن سے سو فی صد پرفارم کرنا ہوگا۔