حقیقی تصوف اور فقیر لوگوں کی باتیں (1)
چند دن پہلے ایک محفل میں گفتگو ہو رہی تھی، کسی نے تصوف کا ذکر چھیڑ دیا اور پھر کسی مرحوم بزرگ کا ذکر آیا تو شرکا محفل میں سے اکثر کا سوال یہی تھا کہ ان صاحب کے کشف وکرامات کے بارے میں کچھ بتائیں۔ اس حوالے سے کچھ باتیں ہوتی رہیں۔ اپنی باری پر ہم نے عرض کیا کہ تصوف کشف وکرامات کا نام نہیں اور نہ ہی اس میں صرف رجال الغائب کے تذکرے ہیں۔ تصوف تو دراصل ایک تربیتی نصاب سمجھ لیں اور خانقاہ کو تربیتی درس گاہ۔ جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ طالب علم (سالک) کی اس نہج پر تربیت کر دی جائے کہ وہ شریعت کی اچھے سے پابندی کر سکے، اس کی باطنی کمزوریوں (غیب، چغلی، جھوٹ، حسد، لالچ وغیرہ)پر قابو پانے میں مدد ملے اور بے جا انا کم کرکے خدمت، ایثار اور قربانی کا سبق دیا جائے۔ یہ تصوف ہے اور اس کامقصود ہی ایک حقیقی مومن بنانا ہے جو شریعت کی پابندی کرتے ہوئے سنت رسول ﷺ کی پیروی کرے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
محفل تو ختم ہوگئی، بعد میں اپنی کچھ یاداشتیں اور نوٹس چیک کر رہا تھا تولاہور کے ممتاز صوفی بزرگ اور صاحب عرفان روحانی سکالر قبلہ سرفراز اے شاہ صاحب سے ہونے والی ایک پرانی گفتگو کی تفصیل مل گئی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ شاہ صاحب سے دو تین بار تفصیلی انٹرویو لینے کا موقعہ ملا اور ان سے کئی نشستوں کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے عہد میں سرفراز شاہ صاحب جیسے صوفی بزرگ کی ضرورت ہے جو تصوف کے تصور پر چھائی گرد ہٹا کر حقیقی شکل سامنے لے آئیں اوریوں اس پروپیگنڈے کو بھی ختم کرنے میں مدد ملے جو بعض مذہب بیزار لوگوں نے تصوف اور صوفیوں کے خلاف پھیلا رکھا ہے۔ سرفراز شاہ صاحب سے اپنے طویل تعلق کی وجہ سے ان کے بہت سے کشف وکرامات کا عینی شائد ہوں، مگر شاہ صاحب ان چیزوں کو کبھی نمایاں نہیں کرتے، اس لئے اس پر میں بھی بات نہیں کروں گا۔ شاہ صاحب کا یہ بھی کریڈٹ ہے کہ انہوں نے جدید ڈکشن میں نہایت آسان اور عام فہم انداز میں تصوف پر آٹھ شاندار کتابیں لکھی ہیں۔ "کہے فقیر" سے یہ سیریز شروع ہوئی تھی جو ابھی جاری ہے۔ جلد ان کی نویں کتاب بھی چھپ جائے گی۔
قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے تصوف کے حوالے سے افکار کی ایک جھلک اپنے قارئین سے شیئر کرتے ہیں۔ سرفراز اے شاہ فرماتے ہیں: " میری رائے میں تصوف کے حوالے سے کشف وکرامات اور رجال الغائب کے تذکرے پر زور دینے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں ضمنی ہیں۔ ہمارے ہاں پڑھنے والے کا بھی اور لکھنے والے کا بھی زیادہ زور اسی پر ہوتا ہے کہ فلاں بندہ پانی پر چلتا رہا یااس نے ہوا میں ہاتھ لہرایا اور مٹھائی لے آیا۔ فلاں نے فلاں آدمی کو دیوار سے مکھِی بنا کر چپکا دیا، تصوف میں اسکی نفی کی گئی ہے۔ جو واقعی صوفیائے کرام ہیں انہوں نے کشف و کرامات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر بابا فرید گنج شکرؒ نے قرآن و حدیث کی درس و تدریس کے ذریعے لوگوں کی اخلاقی تربیت کا سلسلہ جاری کیا ہوا تھا۔ اور وہ تربیت کیا تھی؟ اخلاق حمیدہ۔ لوگوں میں وہ اعلی اوصاف پیدا کرنے کے لیے کہ جو اسلام مومن میں چاہتا ہے اور جو کلیتًا حضور ﷺ کی سنت کی اتباع ہے۔
"بابا فرید گنج شکر پر جب حالت نزع طاری تھا، ہوش نہیں تھا اسوقت بھی فرض عبادات کا خیال تھا۔ جب بھی ہوش آیا، پوچھا کہ میں نے عشا کی نماز پڑھ لی ہے؟ دوبارہ پڑھی، سہ بارہ پڑھی۔ لاشعور میں ایک چیز بیٹھی ہوئی تھی نماز قضا نہ ہو جائے۔ روزہ کی پابندی شدت کے ساتھ کرتے۔ وہ قصہ تو بہت بڑا درس ہے۔ بابا جی بڑ کے درخت کا پھل ابال کے کھاتے تھے۔ گھر میں نمک نہیں ہوتا تھا کہ اس میں ڈال لیا جائے۔ ایک بار نمک کا ذائقہ محسوس ہوا تو مرید وں سے پوچھا کہ نمک کہاں سے آیا، جواب ملا کہ کونے والی دکان سے ادھار منگوایا گیا ہے۔ ڈانٹ کر کہا کہ فقیر اپنے منہ کے ذائقے کے لیے قرض نہیں لیتا۔ اب اس میں ایک بڑا سبق ہے۔ یا وہ مثال کہ گھر میں اگر ایک روپیہ بھی رات کو بچ گیا تو فرمایا ابھی لے کر آئواور خیرات کر دو۔ داتا صاحب کی زندگی سامنے ہے، خواجہ غریب نواز کی زندگی سامنے ہے۔ انہوں نے کب کشف و کرامات پر زور دیا ہے؟ ہمیشہ تعلیمات پر زور دیا ہے۔
"ہم نے وہ جو تعلیمات کا پہلو تھا، جس میں بڑی مشقت چاہیے، اس کو چھوڑ کر جس چیز میں گلیمر ہے جس میں لوگوں کو متاثر کرنے کاپہلو ہے، اس پر سارا کا سارا زور دینا شروع کر دیا۔۔ کیا یہ زیادتی نہیں کہ کہا جائے کہ تصوف نام ہی اس کا ہے کہ انسان کو ماورائی قوتیں حاصل ہو جائیں، غیر انسانی قوتیں حاصل ہوجائیں۔ ہاں اس قسم کی قوتیں غیر مسلموں میں ضرور ملتی ہیں۔ ہندو ازم میں جو تصورِ تصوف ہے اس میں یہ پایا جاتا ہے۔ عیسائیت میں تو باقاعدہ ایک بورڈ بیٹھتا ہے اور اس میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ کس کس انسان سے کیا کیا کرامات سرزد ہوئیں، ان کو پرکھا جاتا ہے اور پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ یہ کرامات سرزد ہوئیں تو اس کو سینٹ ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ اسلام کے اندر تصوف کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ ہمارے ہاں تصوف میں ماورائی قوتوں کا زیادہ تذکرہ اس لئے ہے کہ یہاں کے تصوف میں ہندوستان کے خاص کلچر کی آمیزش ہے، حالانکہ تصوف کی ابتدا عرب اور افریقہ میں ہوئی، وہاں صورتحال مختلف ہے۔
"تصوف کا بنیادی مقصد ہے کہ انسانوں کی تربیت کی جائے اسلام کی اعلی اقدار کے مطابق۔ تصوف کے بارے میں ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ یہ پورا سلسلہ صحابہ کرامؓ کے دور میں نہیں تھا، یہ سب دو صدی بعد شروع ہوا۔ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ سادہ وجہ ہے۔ آپ ﷺ کے زمانہ مبارک میں مسلمان کم تھے، سلطنت بڑی محدود تھی۔ اس کے اندر آپﷺ کی ذات مبارک موجود تھی۔ آپﷺ کی مقناطیسی شخصیت کے اثرات لوگوں پر بہت گہرے تھے۔ اس وقت جو صحابی تھے وہ ٹرینڈ تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے۔ ان کے لیے اخلاق کا معیار بہت بلند تھا۔ جب آپ پردہ فرما گئے تو بعض علاقوں سے مختلف شورشیں اور تحریکیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان کو مضبوطی سے ڈیل کیا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں سلطنت خوب پھیلی اور مسلمانوں کی آبادی میں بہت اضافہ ہوگیا۔ مرکز سے دور ہوا معاملہ، تعداد بڑھی تو مرکز سے دوری آئی۔
"اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اخلاقی اقدار وہ معیار اخلاقیات کا جو صحابہ کرام کا تھا، وہ نہ رہا۔ وہ جو نو مسلم آئے وہاں کچھ کمزوریاں سامنے آنے لگیں۔ آہستہ آہستہ اخلاقی انحطاط بڑھتا گیا۔ اس پر کچھ دردمند لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسا بندوبست کیا جائے کہ جو نو مسلم آ رہے ہیں اور جن کے پاس مال و دولت دوڑ دوڑ کر آ رہی ہے، ان کی اخلاقی حالت کو بہتر بنایا جائے۔ اس پر زاویہ نام سے خانقاہیں قائم کی گئیں۔ یوں اس کی ابتدا ہوئی۔ اب اس کا مقصد بہت اعلی تھا، لیکن جیسے ہمیشہ ہوتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے، انتہائی اعلی مقاصد کی چیزوں کے اندر بھی انحراف شروع ہوجاتا ہے اور پھر کمزوری آجاتی ہے، اسی طرح تصوف کے ساتھ بھی ہوا۔
"جب اسلام انڈیا میں آیا تو یہاں پہلے سے ایک مذہب(ہندوازم) موجود تھا، جہاں روحانیت ایک علیحدہ ڈیپارٹمنٹ کے طور پر ایکسرسائز کیا جا رہا تھا اور یہ بہت پاورفل ادارہ تھا۔ یہاں جو لوگ ہندو سے مسلمان ہوئے، وہ یہ چیز اپنے ساتھ لے آئے۔ اس طرح رفتہ رفتہ جو اس کے اچھے پہلو تھے ان کی جگہ وہ پہلوجو پراسراریت سے متعلق تھے، اولین حیثیت اختیار کر گئے۔ ادھر ہوا یہ ہماری سوچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی آئی اور ہم مادیت کی طرف مائل ہوگئے۔ جوں ہی ہمارا رجحان مادیت کی طرف بڑھا، ہم نے تصوف کے جتنے بھی پازیٹیو پہلو تھے وہ توختم کر دیئے بلکہ اپنی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے وظائف، عملیات اور ذ کر اذکار کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا اور وہ آپ دیکھ رہے ہیں کس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ (جاری ہے)