کورونا: امڈتے طوفان سے بچنا سیکھیں
کورونا کی حوالے سے شدت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ شائد اب اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا میں تو صرف اعداد وشمار آتے ہیں کہ اتنے نئے مریض آئے، اتنے لوگ دم توڑ گئے۔ یہ اندازہ قطعی نہیں ہو رہا کہ کورونا کہ تازہ لہر کتنی تکلیف دہ، شدید اور سریع الاثر ہے۔ جس شخص سے سانس نہ لیا جائے، دم گھٹ رہا ہو، آکسیجن سلینڈ خالی ہو، موت قطرہ قطرہ اس پر وارد ہو رہی ہو، اس پر کیا گزرے گی؟
کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کا ہم نے بغور مشاہدہ کیا۔ بطور صحافی بہت سے ڈاکٹروں سے رابطہ رہا اور معلومات لیتے رہے۔ کورونا کا خود بھی نشانہ بنے، بھائی صاحب کی فیملی بھی متاثر ہوئی۔ اس تیسری لہر نے مگر تمام تر پچھلے اندازے، تجزیے اور پروسیجرز غلط ثابت کر دئیے ہیں۔ مثال سے بات سمجھاتا ہوں۔ پہلی دونوں لہروں کے دوران کسی شخص کو100ڈگری کا بخار ہوتا تو ڈاکٹر اسے محتاط رہنے کا کہتے، گلے میں درد اور خشک کھانسی ساتھ ہوتی تو وہ مشتبہ سمجھاجاتا، مگر دو تین دن تک انتظار کیا جاتا کہ کیا صورتحال ڈویلپ ہوتی ہے۔ اگر کھانسی شدید، بخارتیز اور مسلسل رہے تب اس کا سی بی سی اور سی آر پی ٹیسٹ کرا لیا جاتایا کورونا ٹیسٹ PCRکا کہا جاتا۔ ان کی رپورٹیں آنے میں ایک دو دن لگ جاتے۔ اس دوران کورونا پازیٹو آتا یا نیگیٹو، دونوں صورتوں میں مریض کو قرنطینہ میں رہنے کا کہا جاتا اور یہ کہ کھانے پینے کا خیال رکھا جائے، ملٹی وٹامن لے، وٹامن سی پروٹین وغیرہ استعمال کریں، زیادہ پانی پیا جائے اور بخار کی صورت میں صبح دوپہر شام پیناڈول کی دو گولیاں لی جائیں، زیادہ سے زیادہ ہر چھ گھنٹوں بعد پینا ڈول کا کہا جاتا۔ توقع کی جاتی کہ کورونا ازخود ختم ہوجائے گا۔ کسی کسی کیس میں پیچیدگی پیدا ہوتی تب معاملہ چیسٹ ایکس رے اور پھر اکا دکا کیسز میں HRCTیعنی سٹی سکین کا کہا جاتا۔ تب ڈی ڈائمر، فیراٹین ٹیسٹ وغیرہ بھی کرائے جاتے۔ دوسری لہر میں پیچیدگیاں (Complications)بڑھنے لگیں اور کچھ فیصد کیسز میں چیسٹ ایکس رے اور سٹی سکین کی نوبت آتی۔ یہ بھی سامنے آیا کہ کورونا کے ضمنی اثرات میں سے ایک خون گاڑھا ہوجانا بھی ہے، اس کے لئے بھی لوپرن سیونٹی فائیو یا کوئی اور گولی تجویز کر دی جاتی تاکہ خون پتلا رہے اور کلاٹ نہ بن جائے۔
کورونا کی تیسری لہر پہلی دونوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تیز، شدید اور خطرناک ہے۔ اب ایک دو دن کے بخار کے دوران ہی پھیپھڑے متاثر ہوجاتے ہیں۔ معاملہ اس قدر تیز ہے کہ صرف ایک دن کے بخار کے بعد سی آرپی ٹیسٹ وغیرہ کرایا جائے تو ان کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی آکسیجن سیچوریشن تیزی سے گرنے لگ جاتی ہے، 90سے نیچے چلی جاتی ہے اور مریض کو فوری سٹیرائیڈز کے ساتھ آکسیجن لگانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ایسے کئی کیسز پچھلے چند دنوں میں دیکھے۔ ہمارے قریبی عزیزوں کے ہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کا نوجوان بیٹا متاثر ہوا، پھر والدہ اور بہن کو ہوا اور تیس بتیس سالہ نوجوان کی آکسیجن سیچوریشن صرف دو دن کے بخار کے بعد ہے نوے اکانوے تک پہنچ گئی۔ فوری سٹیرائیڈز شروع کرا دی گئیں، اینٹی بائیوٹک اور دیگر ادویات، تب جا کر حالت سنبھلی۔ ان کی والدہ کی ویکسی نیشن ہوچکی تھی، مگر شائد ابھی اینٹی باڈیز مکمل نہیں ہوئی تھیں، اس لئے کورونا ہو تو گیا، مگر اس کی نوعیت ہلکی تھی اور پھیپھڑے متاثر نہیں ہوئے۔ چھوٹیبہن کو تو آکسیجن سلنڈر استعمال کرنا پڑا، ہسپتال ایڈمٹ کرانے تک نوبت پہنچ گئی۔ الحمد للہ وہ اب بہتر ہیں۔
کورونا کی اس تیسری لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت مستعدی، حاضر دماغی اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کسی اچھے ڈاکٹر کے ساتھ آپ پہلے سے رابطے میں ہوں، تمام تر ضروری معلومات سے لیس ہوں۔ آپ کو معلوم ہو کہ کس مرحلے پر کیا کرنا ہے۔ کہیں پر معمولی سی سستی بھی ہوئی تواس کی تلافی شائد اس بار ممکن نہ ہو۔ یہ بات سب گھر والوں کو سمجھائیں۔ بیٹھ کر ڈسکس کریں، خواتین، بچوں تک کو ضروری معلومات دیں۔ کچھ چیزیں لکھ کر محفوظ جگہ پر، جیسے کسی الماری وغیرہ پرہدایات والا کاغذ چپکا دیں۔ بعض کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ گھر کا سب سے ہوشیار، باخبر اور فعال شخص ہی کورونا کا شکار ہوجاتاہے۔
ہر گھر میں ایک کورونا کِٹ بنا کر رکھ لینی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم آکسیجن آکسی میٹر ہے۔ ہمارے ایک عزیز دوست جو ماہر ڈاکٹر ہیں، انہوں نے اگلے روز بڑے پتے کی بات کی، "کورونا میں زندگی اور موت کے مابین فرق صرف آکسی میٹر ہی ہے۔ اس کا ہونا آپ کو موت کے شکنجے سے کھینچ لائے اور اس کا نہ ہونا زندگی کو خطرہ سے دوچار کر سکتا ہے۔"آکسی میٹر دو ڈھائی ہزارروپے میں مل جاتا ہے، مارکیٹ میں عام دستیاب ہے، اسے لے کر رکھ لیں۔ بخار کا اندازہ ہمیشہ تھرمامیٹر سے لگائیں۔ کسی بھی شک کی صورت میں فوری ٹمپریچر چیک کریں اور آکسیجن سیچوریشن دیکھیں۔ اگر پچانوے سے اوپر ہو تو ٹھیک ہے، ستانوے، اٹھانو ے عمدہ ہے۔ پچانوے سے نیچے پریشان کن ہے، نوے یا اس سے نیچے تو میڈیکل ایمرجنسی ہے۔
صبح شام بھاپ لینے کی عادت ڈالیں۔ کورونا کے مریض کو تو لازمی بھاپ دلوائیں۔ مشاہدے اور تجربے میں آیا ہے کہ کلونجی اور لونگ کی بھاپ مفید ہے۔ چار گلاس پانی میں ایک چمچ کلونجی اور دس لونگ ڈال لیں، اسے گرم کر کے اس کی بھاپ لیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے سانس کے مسائل خاصی حد تک بہتر ہوجاتے ہیں۔ پینا ڈول کے پتے گھر میں موجود ہونے چاہئیں، کوئی سی اچھی ملٹی وٹامن جس میں وٹامن سی اور زنک مناسب مقدار میں ہو، وہ روزانہ استعمال کرتے رہیں۔ پانی میں گھول کر پینے والی کیلشم وٹامن سی والی گولی CAC1000روزانہ لیتے رہیں، وٹامن ڈی کی ہیوی ڈوز ہر پندرہ دن کے بعد لیں۔ حملے کے لئے پہلے سے تیار رہیں، اپنا ہیمو گلوبن یعنی HBلیول اچھا رکھیں، اگر کم ہے تو ڈاکٹر کے مشورے سے آئرن والی گولی لیں یا ایسی غذائیں جن میں آئرن زیادہ ہو۔ یہ سب مگر ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔
کورونا کے آنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو اچھی جسمانی حالت میں لے آئیں۔ اگر بلڈ پریشر، شوگر ہے تو باقاعدگی سے اپنی دوائیاں لیں، پرہیز کریں، واک کرتے رہیں اور سب چیزیں کنٹرول میں رکھیں۔ بخار ہوتے ہی ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور جیسے وہ کہے۔ وقت پر ٹیسٹ کرا لیں، اگر خدانخواستہ بیماری پیچیدہ ہوتی ہے تو بروقت سٹیرائیڈز لئے جا سکیں۔ یہ یاد رکھیں کہ سیلف میڈیکشن نہیں کرنی۔ سٹیرائیڈ اگر وقت سے پہلے لئے جائیں تو مدافعتی سسٹم تباہ کر دیتے ہیں، وقت پر لئے جاتے ہیں تو یہ ڈوبتی ہوئی جان اللہ کی مہربانی سے واپس کھینچ لاتے ہیں۔ ایک بہت اچھی طبی ویب سائٹ کا علم ہوا، یہ اس قد ر مفید ہے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ مرہم ڈاٹ پی کے (https://www.marham.pk/)پر ہر قسم کی کیٹیگری میں سینکڑوں ڈاکٹر موجود ہیں، آپ مناسب آن لائن پیمنٹ کر کے ان سے وقت لے سکتے ہیں۔ ملاقات بھی ہو سکتی ہے اور آڈیو یا ویڈیو کال پر بھی وہ رہنمائی دے سکتے ہیں۔ آزما کر دیکھیں، مجھے تو بہت اچھی اور مفید لگی، خاص کر دوردراز کے شہروں کے مکینوں کے لئے جنہیں کئی امراض کے حوالے سے اچھے ڈاکٹرز کی خدمات حاصل نہیں۔
میں اس بارپاکستانی ڈاکٹروں کی کمٹمنٹ، خلوص اور قربانی کا شدت سے قائل ہوگیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر میڈیکل سٹاف سانپوں کی وادی میں ننگے پیر کھڑا لوگوں کی جانیں بچا رہا ہے۔ کسی بھی وقت کورونا ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بہت سے ڈاکٹر جانیں دے چکے ہیں۔ میڈیکل سٹاف ہمارا محسن اور نجات دہندہ ہے۔ ان کی خدمات کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کریں۔
ذاتی طور پر میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ مریضوں کے ساتھ ان کا سلوک دیکھا۔ سچی بات ہے یہ جنتی لوگ ہیں، دنیا ہی میں جنت کما رہے ہیں۔ لاہور میں سب سے زیادہ کورونا مریضوں کا دبائو میو ہسپتال پر ہے۔ یہاں کے پروفیسروں، کنسلٹنٹ اورنوجوان ڈاکٹروں کے ساتھ دیگر میڈیکل سٹاف نے کمال کر دیا۔ کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کے پرنسپل پروفیسر خالد گوندل تو ایک حیران کن آدمی ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ اتنے اہم منصب پر فائز کوئی شخص چوبیس گھنٹے لوگوں کے لئے دستیاب ہو۔ رات دو بجے بھی ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فوری جواب دیا۔ بے شمار واٹس ایپ گروپ ہیں جن میں گوندل صاحب کے ساتھ پروفیسر بلقیس شبیر صاحبہ اور دیگر پروفیسر، ڈاکٹر حضرات شامل ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ کس وقت سوتے ہیں؟ صبح کے چار پانچ بجے ہوں یا نصف شب کا وقت، کسی واٹس ایپ گروپ میں رپورٹ شامل کی جائے تو ان کا کمنٹ فوری آ جاتا ہے۔ ہر سال چودہ اگست پر قومی ایوارڈز کااعلان کیا جاتا ہے۔ میری رائے میں اس بار ایوارڈز کا بڑا حصہ صرف ڈاکٹروں کے لئے مختص کرنا چاہیے۔ پروفیسر خالد گوندل، پروفیسر بلقیس شبیر صاحبہ اور اس طرح کے دیگر ڈاکٹروں کو بڑے ایوارڈز سے نوازنا چاہیے۔ ان کی قربانیوں، محنت اور ایثار کا اجر تو رب ہی دے سکتا ہے، ریاست اور اس کے شہریوں کو بھی اپنے محسنوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔