افسوس،انضمام الحق ناکام ہوئے
مارچ کا مہینہ پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کے لئے بہت اہم رہا ہے۔ اسی مہینے پاکستان نے اپنا واحد ورلڈ کپ جیتا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ چھبیس سال پہلے مارچ ہی میں ماہ رمضان آیا تھا۔ سحر ی کے وقت اٹھ کر پاکستانی ٹیم کے ورلڈ کپ میچز دیکھنا اور پھر روزہ رکھ کر ٹیم کے لئے دعائیں کرتے رہتے۔ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جاوید میانداد نے بیان بھی دیا تھا کہ رمضان کے مہینے میں قوم کی دعائوں کی وجہ سے اتنی بڑی کامیابی ملی۔ پاکستانی ٹیم کاغذوں پر ہرگز مضبوط نہیں تھی، چند ایک نوجوان کھلاڑی شامل تھے، جنہوں نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔ ان میں ملتان سے تعلق رکھنے والا انیس بیس سال کا نوجوان انضمام الحق بھی شامل تھا۔ یہی انضمام الحق پچھلے چند برسوں سے ٹیم کے چیف سلیکٹر ہیں۔ انضمام الحق پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی تھی کہ ورلڈ کپ کے لئے ایک اچھی، مضبوط اور متوازن ٹیم بنائیں۔ آج کل قومی ٹیم کے کوچ مکی آرتھر بھی پچھلے تین چار برسوں سے یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب مل کر بھی مضبوط اورمتوازن ٹیم بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ جن مسائل کا دو سال پہلے سامنا تھا، آج بھی انہی کا شکار ہیں۔ مستقبل کا کسی کو علم نہیں۔ اللہ کرے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں بہت اچھا کھیل کر تاریخ دہرائے، مگربظاہر بہت اچھے حالات نظر نہیں آ رہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جو حال ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی اسے ورلڈ کپ کے لئے تین سب سے فیورٹ ٹیموں میں شمار نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ پانچویں چھٹے نمبر اس کا چانس نظر آتا ہے۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد صرف اس امر کی نشاندہی کرنا ہے کہ ہم دیگر شعبوں کی طرح ملک کے مقبول ترین کھیل کرکٹ میں بھی مستقبل کو مدنظر رکھ کر اچھی پلاننگ نہیں کر سکے۔ تین چار بنیادی ایشوز ہیں، کئی برسوں سے ہم ان کا حل نہیں نکال پائے۔ ڈیڈ اوورز میں ماہر بائولرز کا نہ ہونا۔ پاکستانی بائولنگ لائن کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک زمانے میں پاکستانی بائولرز آخری اوورز میں بہت خطرناک اور میچ کا پانسہ پلٹ دینے کے ماہر تھے۔ وسیم، وقار، شعیب اختر اور بعد میں عمر گل وغیرہ بھی ریورس سوئنگ کے ماہر تھے، آخری اوورز میں وکٹیں لے کر دبائوڈالتے اور رنز نہ بننے دیتے۔ اس ریورس سوئنگ کو ختم کرنے کے لئے کرکٹ قوانین تبدیل ہوئے۔ پرانی گیند سے ریورس سوئنگ اچھی ہوتی، اس لئے اب ون ڈے میں دونوں اینڈز سے الگ الگ نئی گیندیں استعمال ہوتی ہیں۔ یوں ہمارے باولرز اتنے موثر نہیں رہے۔ اب جہاں کہیں خشک، کھردری پچ ہو یا وہاں ایک سے زائد میچ کھیلے گئے ہوں، جس کی وجہ سے گیند جلد کھردری ہو کر ریورس سوئنگ ہونے لگے، صرف وہاں پاکستانی فاسٹ بائولرز کامیاب ہوتے ہیں۔ سعید اجمل کے بعد ہمارے پاس کوئی ایسا سپنربھی نہیں جو آخری دس اوورز میں بائولنگ کرا سکے۔ ہم ڈیتھ اوورز کے لئے سپیشلسٹ بائولرز نہیں تلاش کر پائے۔ ایسے بائولرز جواچھی سپیڈ کے ساتھ یارکر ٹائپ گیندیں کرا سکیں یا جن کا ایکشن مختلف ہو، مخالف بلے باز اسے جلد سمجھ نہ سکے اور وہ اپنی سلو بالز اور دیگرورائٹیز کے ذریعے پریشان کر سکے۔ انڈیا نے اس پر کام کر کے بمرا کی صورت میں ایک تیز یارکر سپیشلسٹ تیار کرکے اسے تجربہ کار بنا لیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ سیریز میں ان کے ایک دو غیر معروف بائولرز نے عمدگی سے یہ کام کیا۔ ویسٹ انڈیز کے پاس اچھے سلوبال سپیشلسٹ ہیں۔ ہمارے پاس ڈیڈ اوورز کے لئے سب سے کمزور بائولرز ہیں۔ ایک اور نقص درمیانے اوورز میں وکٹ نہ لینے والے بائولرز کا بھی ہے۔ سعید اجمل یہ کام عمدگی سے کرتے تھے۔ شاداب خان اچھے سپنر ہیں، مگر اب ان کی گگلی زیادہ موثر نہیں رہی اور درمیانے اوورز میں وہ اتنے خطرناک نہیں رہے۔ یہ کام محمد حسنین جیسے کسی جینوئن فاسٹ بائولر سے بھی لیا جا سکتا تھا۔ افسوس کہ حسنین یا حارث رئوف دونوں اتنا دیر سے سامنے آئے کہ وہ ورلڈ کپ کے لئے گروم ہی نہیں ہوسکے۔ حسنین کو اگر ساتھ لے جانے کا بولڈ فیصلہ کیا گیا تو شائد اس کا فائدہ ہوجائے۔ پی ایس ایل میں عمرخان کی صورت میں ایک ایسا نوجوان لیف آرم سپنر ملا جس پر اگر محنت کی جاتی تو وہ درمیانے اوورز میں وکٹیں لے سکتا تھا، بدقسمتی سے انضمام نے اسے آسٹریلیا کے خلاف سلیکٹ ہی نہیں کیا۔ پاورپلے اوورز میں ہٹرز کا نہ ہونا۔ یہ دوسرا بڑا بنیادی نوعیت کا نقص ہے۔ کرکٹ اب بالکل بدل گئی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی نے تمام قاعدے ضابطے بدل دئیے اور اب ون ڈے میں تین سو، سوا تین سو رنز بننا عام ہوگیا۔ بلے باز آسانی سے ایک اوور میں پندرہ بیس رنز بنا لیتے ہیں، ایسے ایسے غیر روایتی سٹروک ایجاد ہوگئے کہ حیرت ہوتی ہے۔ پی ایس ایل میں ڈی ویلیئرز نے جنید خان جیسے تجربہ کار بائولر کی آف سٹمپ سے باہر پڑی لو فل ٹاس کو ریورس سوئپ ٹائپ شاٹ کھیل کر چھکا لگا دیا۔ پہلے ایسا ممکن نہیں لگتا تھا، آج ہو رہا ہے۔ پاکستان واحد ٹیم ہے جس کے پاس آخری دس پندرہ اوورز میں چھکے، چوکے لگانے والے پاور ہٹر موجود نہیں۔ ہم ایسے بلے باز ڈھونڈ ہی نہیں سکے۔ پہلے عمر اکمل کو کھلاتے رہے، وہ اپنے غیر پیشہ ورانہ انداز سے ناکام ہوا تو کبھی آصف علی کو کھلایا۔ پہلے میچ سے نظر آ گیا کہ وہ قابل اعتماد بلے باز نہیں اور فٹ ورک سے عاری ہونے کی وجہ سے مخصوص گیندوں پر ہی شاٹ کھیل سکتا ہے۔ بیچ میں حسین طلعت کو آزمایا گیا۔ فہیم اشرف کو آل رائونڈر بنانے کی ناکام کوشش کی گئی، اگرچہ شروع سے اندازہ تھا کہ ان تلوں میں اتنا تیل نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس امام الحق، بابراعظم، حارث سہیل، شعیب ملک ایک ہی طرح کے کھلاڑی ہیں۔ محمد حفیظ نے ایک آدھ میچ میں ہٹنگ کر لی، مگر وہ بھی اس کام کے لئے نہیں بنا۔ آسٹریلیا کے میکسویل کی طرح کاہٹر ہمارے پاس نہیں۔ بلکہ شروع میں بھی فخرزماں کے علاوہ کوئی ہنڈرڈ پلس سٹرائیک ریٹ سے کھیلنے والا نہیں۔ اسکا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈھائی سو رنز تک کا ہدف ہم بنا لیتے ہیں، تین سو یا اس سے زیادہ رنز بنانے ممکن نہیں رہتے اور دس، پندرہ، بیس رنز کم بنا کرہار جاتے ہیں۔ دو ڈھائی برسوں سے یہ مسئلہ درپیش ہے اور آج بھی حل کسی کے پاس نہیں۔ سرفراز کی ٹیم میں جگہ نہ بننا۔ یہ بھی بڑا سنگین ایشو ہے، کپتان ہمیشہ وہی بنتا ہے جس کی ٹیم میں جگہ یقینی ہو۔ سرفرازون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کا بہت اچھا کپتان ہے، وکٹ کیپر وہ اوسط درجے کا ہے، مگر بدقسمتی سے اس کی بیٹنگ اوسط سے بھی نچلے درجے کی ہوچکی۔ بطور وکٹ کیپر بلے باز کی اس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ ون ڈے کا سادہ اصول ہے کہ کم از کم پانچ بائولرز درکار ہیں جو دس دس اوورز کرا سکیں، یعنی پانچ بائولرز اور چھ بلے باز، تب گیارہ کھلاڑی مکمل ہوں گے۔ سرفراز کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹنگ کی بنیاد پر چھ بلے بازوں میں نہیں شمار ہوتا۔ وہ کھیلے تو ٹیم گویا ساڑھے پانچ بلے بازوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ ہمارے اوپنرناقابل اعتماد ہیں، وہ جلدی آئوٹ ہوجائیں تو نمبر تین، چار پر ہی انحصار رہتا ہے، نمبر پانچ پر شعیب ملک ہے جس کے کیرئر کا اختتام ہے، وہ اب میچ وننگ کھلاڑی نہیں۔ سرفراز نمبر چھ پر پاور ہٹنگ بھی نہیں کر پاتے بلکہ شرمندہ سے ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر نمبر سات، آٹھ والے کو اپنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں۔ یوں ٹیم اور اس کی کارکردگی میں ایک مسالے کی کسر ہمیشہ رہ جاتی ہے۔ بورڈ مینجمنٹ کو اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے تھا، یا تو وہ کسی اور کو کپتان کے طور پر گروم کرتے یا پھر سرفراز کو اوپر کھیلنے کی ترغیب اور اعتماد دیتے۔ یا پھر چھ بلے بازوں میں سے کوئی ایسا بیٹنگ آل رائونڈ ہوتا جو دس اوورز کرا سکے جیسے میکسویل کرا رہا ہے یا پھر بھارت کا کمار جادیویا جدیجہ۔ اس سے سرفراز پر دبائو کم ہوتا اور ایک ایکسٹرا بلے باز کھلایا جا سکتا۔ موجودہ صورت میں تو دعائوں پر تکیہ کرنا پڑے گا کہ چیمپینز ٹرافی کے انڈیا کے خلاف میچ کی طرح فخر زماں سنچری بنائے یا بابراعظم اور حارث معجزہ کر دکھائیں یا کچھ اور۔ خامیاں اور بھی کئی ہیں۔ فیلڈنگ ہمیشہ سے ہمارا ایشو رہا، ڈائریکٹ ہٹ پر رن آئوٹ ہم نہیں کر پاتے، بلے بازوں کی وکٹ پر رننگ زیادہ تیز نہیں۔ ان سب پر کام ہونا چاہیے تھا، کچھ پر کیا بھی گیا، مگر وہ کافی نہیں۔ حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ ہمارے جیسے عام کرکٹ شائقین کو یہ سب باتیں نظر آ رہی ہیں، مگر انضمام الحق جیسے گریٹ کرکٹر کواس کا اندازہ کیوں نہیں ہو رہا یا پھر وہ اپنی فطری سستی اور غیر متحرک ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کر پائے۔ وجہ جو بھی ہو، چیف سلیکٹر، چیف کوچ اور بورڈ مینجمنٹ ورلڈ کپ کے لئے بہترین، متوازن ٹیم تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سب پندرہ سال پرانی کرکٹ کا تصور لئے بیٹھے ہیں مگر کھیل بہت ماڈرن ہوچکا۔ ہمیشہ کی طرح لگتا ہے اس بار بھی ہمیں اپنی دعائوں پر زیادہ تکیہ کرنا پڑے گا، ٹیم میرٹ پر ورلڈ کپ جیتتی نظر نہیں آ رہی۔