’’استاد‘‘ کا مقام
"استاد" علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔
اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی فلاح و بہبود، جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جو معاشرے استاد کی اہمیت کو جان چکے ہیں، وہ اُنہیں عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ فکر معاشیات سے بھی آزاد کر چکے ہیں، جب کہ ہمارے جیسے معاشرے اُن کے لیے ایسی ایسی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں کہ اساتذہ اپنی اصل ذمے داریاں چھوڑ کر فکر معاش اور عزت بچاؤ مہم پر لگ چکے ہیں، ہمارے معاشرے میں بھی اُساتذہ کرام نچلے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات جیوڈیشری اور بیوروکریسی کو حاصل ہے لیکن جو طبقہ بچوں کو پڑھتا ہے اور ان تربیت کرتا ہے، سرکار اس سے غافل ہے۔ ہمارے اُساتذہ کی تعداد 50لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے، جن میں سے 27لاکھ سرکاری اور 23لاکھ پرائیویٹ اساتذہ ہیں۔ لیکن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ96فیصد اساتذہ سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کا دنیا بھر کے اساتذہ کو دی جانے والی تنخواہوں اور دیگر مراعات سے مقابلہ کریں تو ہم کسی رینکنگ میں ہی نہیں آتے۔
کیوں کہ ہم ایک اُستاد کو 3200ڈالر سالانہ اوسطاََ تنخواہ دے رہے ہیں جب کہ سوئٹزرلینڈ میں 1لاکھ دس ہزار ڈالرسالانہ، کینیڈا میں 80ہزارڈالر، جرمنی 70ہزار ڈالر، ہالینڈ65ہزار ڈالر، آسٹریلیا 67ہزار ڈالر، امریکا 63ہزار ڈالر اور ڈنمارک، آسٹریا، آئرلینڈ وغیرہ 60ہزار ڈالر سالانہ تنخواہیں دے رہے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں ایک اُستاد کی اوسطاََ ماہانہ تنخواہ اگر 40ہزار روپے بنتی ہے تو مذکورہ بالا ممالک میں اوسطاََ ماہانہ تنخواہ 7سے 9لاکھ روپے بنتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اساتذہ پر اتنا کیوں خرچ کرتی ہیں؟ ظاہر ہے وہ جانتی ہیں کہ ٹیچر ہی قوم کی تعمیر نو کرتا ہے، باقی شعبہ جات تو قوم کے لیے سروسز فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہ ٹیچر کو دوسرے طبقات سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ سائنسدان پیدا کر سکیں اور تحقیق میں اپنے طلبہ کی مدد کر سکیں۔ جب کہ ہم اساتذہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے بھی دنیا بھر کی کسی رینکنگ میں نہیں آتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر کسی استاد کو کسی وجہ سے عدالت میں حاضر ہونا پڑ جائے تو اپنی کرسی سے احتراماََ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان پر جرمانے وغیرہ، اگر بنتے ہوں تو فوراً ختم کردیے جاتے ہیں کیونکہ وہاں یہ تصور ہی نہیں کہ کوئی استاد جان بوجھ کر رولز کی خلاف ورزی کرسکتا ہے۔ لیکن یہاں کا بھی ایک واقعہ سُن لیں کہ ہمارے اُساتذہ کرام کی " عزت و تکریم "کیسے کی جاتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل پنجاب کی ایک تحصیل کے ڈگری کالج میں انٹرمیڈیٹ کا امتحانی سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ متعلقہ تحصیل کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر امتحانی سینٹر کے دورے پرگئیں، محترمہ کالج کا دورہ کرنے کے بعد پرنسپل آفس میں داخل ہوئیں اور پرنسپل کی کرسی پر براجمان ہوکر حاضری رجسٹر لانے کا طلب کیا، کالج پرنسپل کھڑے رہے جب کہ سرکاری کی انتظامی افسر صاحبہ پرنسپل کی کرسی پر بیٹھی پاؤں ہلا کر منتظربا رجسٹر ہیں، کالج کا سارا اسٹاف بھی موجود تھا۔ لیکن ایک پروفیسر صاحب نے جرات کی اور بولے "آپ کو جو ریکارڈ اور معلومات چاہئیں، دینے کو تیار ہوں لیکن یہ کرسی پرنسپل کی ہے، اس پر نہ بیٹھیے۔ یہ کرسی آپ کی نہیں، دوسری کرسی پر بیٹھیے۔" اسسٹنٹ کمشنر اس بات پر سیخ پا ہوگئیں اور پولیس بلا کر پروفیسر صاحب کو حوالات کی سیر کرا دی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی چند ماہ قبل ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اساتذہ جو 11دن سے سخت سردی میں بیٹھے تھے، ان پر شیلنگ وغیرہ کی گئی، یہ اساتذہ بھلا کون تھے؟ یہ وہ اساتذہ تھے جنھیں حکومت 8ہزار روپے ماہانہ دے رہی تھی، اور گزشتہ 7ماہ سے وہ بھی بند کر دی گئی تھی۔ یعنی یہ اساتذہ شام کی شفٹ میں بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تحت بچوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جسے حکومت نے بغیر بتائے بند کر دیا اور محض 8دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہوں پر رکھے گئے اُساتذہ پر بھی قدغن لگا دی گئی۔
پھر آپ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کو دیکھ لیں۔ 90فیصد اسکولوں میں اساتذہ ماہانہ 5ہزار سے 15ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں، یہاں یہ بات حکومتیں ضرور بتائیں کہ ایک استاد آخر کیسے 10، 000 روپے یا 20، یا 40ہزار روپے میں گزارہ کرے اور اپنے خاندان کی دال روٹی کا بندوبست کرے؟ آپ آج کے دور میں 50ہزار روپے ماہانہ سے گھر کا کچن چلا کر دکھا دیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کا کچن اتنے کم پیسوں سے چل سکے۔ بقول شاعر
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
بہرکیف ایک انگریزی مقولہ ہے: A Teacher is a Beacon that lights the path of a Child (استاد وہ مینارہ نور ہے جوبچے کی راہ کو "علم و ہدایت سے " منور کر دیتا ہے)، پھر حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ہر وہ شخص میرا استاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا ہو۔ اگر ہم مغربی اقوام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اُستاد کو معاشی مشکلات کے جھنجٹ سے نکالا جائے، اُسے معاشرے کا ایک غیر اہم حصہ بنانے کے بجائے مغربی اقوام کی طرح اُسے عزت دی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس معاشرے میں اندھیرا مزید گہرا ہوتا جائے گا۔