سیاست سے ریٹائرمنٹ: غیر جمہوری عمل!
ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے بنتی اور تشکیل پاتی ہے۔ اِسے مشاہداتی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ ایک عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ سیاست کیسے کیسے کروٹ بدل رہی ہے، کل کے مجرم آج کے فرشتے اور آج کے فرشتے کیسے مجرم بن جاتے ہیں۔
جب یہ دیکھتا ہوں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا توعجیب کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں، چونکہ میں پاکستان کی 4دہائیوں کی سیاست کا عینی گواہ اور تاریخ کا طالب علم ہوں۔ اس لیے موجودہ سیاست کے رنگ دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ زندگی کے باقی شعبوں کی مانند ہماری سیاست کا معیار اور اخلاقیات بھی مسلسل تنزل کا شکار ہے۔
میں نے بچپن میں جس طرح کی سیاست دیکھی اُس میں تہذیب، اخلاق، باہمی احترام وغیرہ کا رنگ غالب تھا۔ جوں جوں جوانی کی بہار آئی، سیاست کا اخلاقی معیار گرتے دیکھا۔ وہ سیاستدان ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے جو عوام کی تربیت کرتے اور اُنہیں تہذیب کے دائروں کے اندر رکھتے تھے۔ اور کم ہی دیکھا کہ وہ سیاستدان سیاست سے ریٹائرڈ ہوئے ہوں۔ لیکن حالیہ دنوں میں سیاست کو ہم نے "ریٹائرڈ" ہوتے بھی دیکھا، ملک سے بھاگتے ہوئے بھی دیکھا، کرپشن کرتے بھی دیکھا، ایک دوسرے کی عزتیں اُچھالتے ہوئے بھی دیکھا، ضمیر کے سودے کرتے بھی دیکھا اور ایک دوسرے کو قتل کرتے بھی دیکھا۔
ہمیں سیاست اسی اصول کے تحت پڑھائی گئی تھی کہ سیاست عبادت ہے۔ کیوں کہ عبادت انسان اپنے لیے کرتا ہے اور سیاست اﷲ کے بنائے ہوئے بندوں کی خدمت کے لیے کرتا ہے جو مرتے دم تک رہتی ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کے گزشتہ ہفتے ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست سے "ریٹائرمنٹ" کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ خرابی صحت اور مذہبی و اصلاحی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے سیاست کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔
انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ان کے دوبارہ ملکی سیاست میں واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس سے پہلے 2000ء کی انتخابی ناکامی کے بعد بھی انھوں نے سیاست سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا، مگر پھر بارہا اس کوچے میں آ نکلے۔ اس لیے اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ کل طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر سیاست میں سرگرم نہیں ہوں گے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ سیاست سے "ریٹائرمنٹ" کون لیتا ہے؟
اب اگر انھوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے تو لازم ہے کہ وہ چند سوالات کے جوابات دیں جو عوام اُن سے پوچھنا چاہتے ہیں؟ اس لا حاصل جدوجہد میں لوگوں سے جو قربانیاں لی گئیں، جو 14بندے قتل ہوئے اس کا حساب کون دے گا؟ قادری صاحب نے سیاست کے اس عمل کو حق و باطل کا معرکہ بنایا۔
حق و باطل کے اس معرکے سے لا تعلق ہونا، کیا کمزوری کا اظہار نہیں؟ وہ جو پاکستان کو ریاست مدینہ دیکھنا چاہتے تھے اور اس کوشش میں سینے اور حلق میں گولیاں کھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے، اُن کے خون کا حساب اب کون لے گا؟ آپ نے عمران خان کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کی، یہ یلغار 126 دن جاری رہی اور ان 126 دنوں میں کیا کیا انقلاب نہیں آیا، پارلیمنٹ کے جنگلے توڑے گئے، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے گیٹ اکھاڑ دیے گئے، پی ٹی وی پر قبضہ ہوا اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندی شلواریں لٹکائی گئیں، یہ تماشا 126 دن چلا، انقلاب کے ان 126 دنوں میں ملک 126 سال پیچھے چلا گیا، عوام رل گئے۔ کیا جس نظام کو بدلنے کے لیے سب کچھ کیا گیا، وہ بدل گیا؟
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے
جھوٹ بھی بولیں صداقت کے پیامبر بھی بنیں
ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہوگی ہم سے
کیا اب آپ مہاتیر محمد کی طرح سیاست سے اس لیے ریٹائر ہورہے ہیں کہ آپ نے ملک کی سیاست کو ٹھیک کردیا ہے؟ مہاتیر محمد گزشتہ 15 سال سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ ملک میں کرپشن کی وبا عام ہونا شروع ہوئی اور ملائیشیا کے حکمران بھی اس میں ہاتھ رنگنے لگے تو 92سالہ معمر مہاتیر محمد ایک دفعہ پھر اپنی قوم اور ملک کو بچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اُس نے پہلے اقتدار حاصل کیا، پھر اُس نے ملک کو ٹھیک کیا اور ریٹائر ہوگیا، لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے بنائے ہوئے لوگ اُمیدوں پر پورے نہیں اُترے، تو وہ واپس آگئے۔
لیکن اس کے برعکس آپ کی تو اس ملک کے لیے اتنی سیاسی خدمات بھی نہیں ہیں جنھیں یاد رکھا جائے گا۔ خیر آپ فیڈرل کاسترو کو لے لیں، 95سال کی عمر تک اپنی قوم کے لیے لڑتے رہے۔ نیلسن منڈیلا، گاندھی، قائداعظم محمد علی جناح، نوابزادہ نصراللہ، معراج خالد، غفار خان، ولی خان، سردار عبدالرب نشتر، چوہدری محمد علی، قیوم خان جیسی شخصیات تاحیات عوام کی خدمت کے لیے آخری سانس تک لڑتی رہیں، ان شخصیات کے مقابلے میں تو جناب طاہر القادری کی عمر ابھی کم ہے، صحت بھی ماشاء اللہ ہشاش بشاش ہے تو آپ اپنے کارکنوں کو میدان جنگ میں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کیوں کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں۔
طاہر القادری صاحب کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا مطلب ہے کہ اب جتنی مرضی لاشیں گریں، جتنا مرضی ظلم ہوگا، طاہر القادری واپس نہیں آئے گا، معذرت کے ساتھ اُنہوں نے اتنے سالوں میں اپنی پارٹی قیادت ہی تیار نہیں جو اُن کے بعد پارٹی سنبھال سکیں۔ وہ اپنے بیٹوں کو سیاست میں نہیں لانا چاہتے، وہ کسی پارٹی عہدیدار کو اناؤنس نہیں کر رہے تو ایسے حالات میں اُن لواحقین کا کیا بنے گا جو آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
بہرکیف آپ ریکارڈ چیک کر لیں، جب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا ہے، راقم کے درجن بھر کالم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے وارثین کے حوالے سے ملیں گے جس میں ہم نے محض اس بات کو سامنے رکھا ہے کہ کوئی تو ذمے دار ہو گا، ان 14لوگوں کے قتل کا جو "انقلاب"کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ لہٰذااگر میں بطور تھرڈ پرسن اس چیز کا دکھ منا رہا ہوں تو قادری صاحب اس سے کیسے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ سیاست نہ تو سرکاری نوکری ہے کہ آپ ریٹائر ہوسکتے ہیں اور نہ یہ اسپورٹس ہے کہ آپ فٹ نہیں رہے اور ویسے بھی جتنی آپ کی عمر ہے اس عمر میں تو لوگ سیاست سے قدم رکھتے ہیں ، اس عمر میں تو لوگ سرکاری عہدوں سے ریٹائرمنٹ لے کر عوامی خدمت کی جانب راغب ہوتے ہیں۔
لہٰذاہم تنقید برائے تنقید کے حامی نہیں بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدارا آپ ریٹائرمنٹ واپس لیں اور اپنے کارکنوں کو میدان جنگ میں اکیلا نہ چھوڑیں، کیوں کہ آپ نے جس سسٹم کے تبدیل کرنے کی بات کی تھی وہ آج بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اگر آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ کے بعد آنے والے لوگوں کو یہ موقع میسر آئے گا کہ وہ لوگوں کو استعمال کریں اور چلتے بنیں۔ اور چونکہ پاکستان میں اس وقت "سماجی احتساب "کا کوئی نظام موجود نہیں جو ایسے لوگوں کا محاسبہ کرے جو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس طرح کے المیے کبھی نہ رقم ہوں۔
سماجی احتساب وہاں ممکن ہوتا ہے، جہاں عوام کی شعوری سطح بلند ہو۔ پاکستان میں لوگوں کی سیاسی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کبھی مذہب کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی احتساب کے نام پر۔ کاش یہ ممکن ہو کہ ایک تجربے کی ناکامی کے بعد لوگ عبرت حاصل کریں اور آنے والے دور میں کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔ اس لیے میرے خیال میں نقصان سراسر ہمارا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری تو ہمہ جہت ہیں، وہ دینی خدمات پر توجہ دے لیں گے، مذہبی سرگرمیاں بڑھا لیں گے، تفسیر و ترجمہ اور تنظیم پر وقت صرف کر لیں گے مگر ہمارا کیا بنے گا، ہمارے پاس سیاست میں ایک ہی عبقری شخصیت تھی، ہم اچانک اس سے "محروم" ہو گئے اور جمہوری روایات میں ایک غلط اقدام کا اضافہ کر کے چلے گئے!