پی ڈی ایم : اتحاد ’’قربانی‘‘ سے چلتے ہیں !
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 12سیاسی اتحاد بنے، لیکن پی ڈی ایم اپنی نوعیت کا پہلا اتحاد ہے، جو چند ماہ چلنے کے بعد ٹوٹ گیا۔ پاکستان کی "اتحادی سیاست" کا آغاز 1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا، 1953 میں دی یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے اتحاد بنایا گیا، یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مشتمل تھا۔
پاکستان میں تیسراسیاسی اتحاد ایوب خان دور میں "متحدہ اپوزیشن" کے نام سے بنا، جس کی قیادت مادر ملت فاطمہ جناح نے کی۔ چوتھا اتحاد30 اپریل 1967کونوابزادہ نصراللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی "پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ" کے نام سے بنایا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ پھر پانچواں اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحادکے نام سے بنایا، اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے خلاف6 فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے "ایم آر ڈی" کی شکل میں چھٹے اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔
اس اتحاد میں 10سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ساتواں اتحاد اسلام کے نام پر بنایا گیا، یہ اتحاد 1988 میں وجود میں آیا جس کا نام "اسلامی جمہوری اتحاد" (آئی جے آئی) رکھا گیا۔ پھر 1990میں آٹھواں سیاسی اتحاد "پیپلز ڈیموکریٹک الائنس" بنا جس کی قیادت بے نظیر جب کہ آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے۔
اس کے بعد 1997 میں "گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس" کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے، یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا۔ پھر دسواں اتحاد مشرف حکومت کے خلاف بنا جس میں 15سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور اس کا نام "تحریک بحالی جمہوریت" رکھا گیا۔ پھر گیارہواں اتحاد "متحدہ مجلس عمل" کے نام سے 6مذہبی جماعتوں نے تشکیل دیا، پھر اسی دوران نیشنل الائنس اور "ملی یکجہتی کونسل" وغیرہ کے نام سے بھی اتحاد بنے لیکن یہ زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔
پھر گزشتہ سال تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت 11جماعتوں کی اے پی سی ہوئی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں اپوزیشن نے حکومت مخالف نیا اور بارہواں اتحاد بنا لیا۔ جس کا نام "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" (PDM) رکھا گیا۔
اور یہی پی ڈی ایم مارچ 2021 میں ٹوٹ گئی جس میں سے پیپلز پارٹی اور اے این پی الگ ہوگئے، اس کے ٹوٹنے کی وجوہات تو بہت سی تھیں، مگر اس کا بظاہر موجب سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب اور آصف علی زرداری کی وہ تقریر بنے جس میں انھوں نے نوازشریف کو پاکستان آنے کے بارے میں سخت "مشورے" دے ڈالے۔ اور اب جب کہ یہ تحریک شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دوبارہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کر چکی ہے تو اب کی بار اس میں شاید وہ زور نہ ہو جو پچھلے سال پیپلزپارٹی اوراے این پی کی موجودگی میں دیکھا گیا تھا۔
اب اگر پی ڈی ایم کو سیاسی تحریک چلانا ہے، مہنگائی کے خلاف عوام کا ساتھ دینا ہے یا جمہوریت کو مزید مستحکم کرنا ہے تو میرے خیال میں سولو فلائیٹ" کے بجائے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ کیوں کہ اگر ن لیگ پیپلز پارٹی کی ہر بات سے انکار کرے گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتحاد چل سکے؟ اور ویسے بھی ان سیاسی اتحادوں کو اگر جمہوری انداز سے چلایا جائے تو یہ ملک کے لیے کارگر بھی ثابت ہوتے ہیں جیسے ملائشیا کے سیاسی اتحادوں UMNOاور PASنے کرپٹ حکومت کو ختم کیا اور ملائشیا کو ترقی کی راہ پر چلایا۔
اتحاد تو ہمیشہ قربانی مانگتے آئے، اور قربانی بھی ہمیشہ بڑی پارٹی کو ہی دینا پڑی ہے۔ آج تک جتنے بھی دنیا میں اتحاد دیکھے گئے ہیں، سب میں قربانی بنیادی شرط سمجھی جاتی ہے۔ فرض کیا، پیپلزپارٹی نے ن لیگ سے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد لے آئیں، ن لیگ نہیں مانی، حالانکہ اگر ن لیگ ق لیگ کو آگے آنے دیتی اور کھلے دل سے اُس کو تسلیم کرتی تو اس میں برائی کیا تھی؟ پھر پیپلزپارٹی نے کہا احتجاج کا رخ پارلیمان میں ہونا چاہیے، ن لیگ نے کہا سڑکوں پر ہونا چاہیے۔ اب بندہ پوچھے کہ کورونا کے دور میں سڑکوں پر سیاسی احتجاج کس ملک میں ہو رہے ہیں بھلا؟
بہرکیف کوئی بھی اتحاد Give and Take سے چلتا ہے، کسی اتحاد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی ایک پارٹی کا زور چلے۔ جب اتحاد بنتے ہیں، تو سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، سب کو برداشت کرتے ہیں، اب اگر ن لیگ چاہتی ہے کہ ہر کوئی ن لیگ کے رولز کو فالو کرے، اور جو وہ کہے وہی پتھر پر لکیر ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ن لیگ واقعی تحریک چلانے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے اُسے اپنے اندر جرأت پیدا کرنا ہوگی، کیوں کہ اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پی ڈی ایم پچھلے "سیزن" میں ناکام ہو چکی ہے۔
اور اب کی بار بھی ایسا ہی لگ رہا ہے، کہ اس سیزن میں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے کیوں کہ کہانی کے مرکزی کردار ہی آپس میں اُلجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور سیزن کی اسٹوری بھی روایتی سی ہے، کہ سب کو علم ہے کہ کب کیا ہونے والا ہے۔
لہٰذاجب آپ اپنی مرضی کے نتائج مانگیں گے تو پھر کبھی اتحاد نہیں چلتے۔ اوراب چونکہ شہباز شریف میدان میں آچکے ہیں، اور وہ مفاہمتی سیاست کے بادشاہ بھی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب تر بھی سمجھے جاتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور پلس پوائنٹ ساتھ ملا لیں کہ زرداری اور شہباز شریف کے خیالات بھی ملتے جلتے ہیں تو اُن کو پاکستان کے وسیع تر مفادات میں آگے بڑھنا چاہیے اور ہم بھی اُس اتحاد کو سپورٹ کریں گے جو پاکستان کے لیے کام کرے گا۔ کیوں کہ روز اول سے شہباز شریف افہام وتفہیم کی سیاست کے قائل رہے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے تابعدار اور برے وقت میں ساتھ بھی نبھاتے رہے۔
بدترین مواقع پر بھی انھوں نے مصالحت کی کھڑکیاں کھلی رکھیں، اور اُمید ہے پی ڈی ایم میں بھی ایسا ہی لائحہ عمل اپنائیں گے۔ ورنہ اختلافات کو مزید ہوا دی گئی تو پھر یہی کہاوت لاگو ہو جائے گی کہ "لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ، ایک کی دُم۔