Friday, 25 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Kon Si Kitab Chahiye

Kon Si Kitab Chahiye

کون سی کتاب چاہیے

بات ایک کتاب کی تلاش سے شروع ہوئی تھی۔ اس تلاش کی کہانی بتانے کے لیے بھی 20 ایک سال پیچھے جانا پڑے گا جب آتش جوان تھا اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پڑھ رہا تھا۔ لائبریری سے ایک کتاب ہاتھ لگی Press in Chains. ضمیر نیازی صاحب کی اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ آزادی سے پہلے انگریز سرکار کس طرح سے صحافت پر پابندیاں لگاتی تھی اور آزادی کے بعد دیسی حکمرانوں نے کس طرح یہ کام جاری رکھا۔ دل چسپ کتاب تھی۔ پڑھنے کے بعد لائبریری کو واپس کر دی۔

نوکری کا سلسلہ تو دوران تعلیم ہی شروع ہوگیا تھا، تعلیم مکمل ہوئی، یونیورسٹی چھوٹی، عملی صحافت کرتے کچھ برس بیتے اور آج کے دور کی پابندیاں دیکھیں تو ضمیر نیازی صاحب کی وہی کتاب دوبارہ یاد آئی۔ اسے ڈھونڈنے نکلا تو کسی دکان سے ملے ہی نہ۔ بہت خاک چھانی، بتایا جاتا کہ اب یہ کتاب چھاپی ہی نہیں جا رہی۔ اردو بازار لاہور کے چکر لگائے۔ لاہور کے انارکلی بازار میں اتوار کے اتوار پرانی کتابوں کا جو بازار سجتا ہے، وہاں بھی گیا۔ پرانی کتابیں فروخت کرنے والے کتنے ہی صاحبان کو کہا۔ آن لائن کوئی ایسے صاحب ملے جو پرانی کتابیں فروخت کرتے تھے تو ان سے بھِی درخواست کی۔ اس تلاش میں کتنے ہی سال بیت گئے۔

ایک جانب اس کتاب کی تلاش جاری تھی، ساتھ ساتھ دیگر کتب کا مطالعہ بھی ہو رہا تھا۔ میں فیس بک پر ایک گروپ کا ممبر بنا تھا، جس کا نام تھا "کون سی کتاب کیسی ہے؟ (تبصرے)" پڑھنے والے اس گروپ میں کسی کتاب پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ کتابوں جیسے سنجیدہ موضوع پر گروپ بنانے والا اس کا ایڈمن 20 برس کے آس پاس عمر کا ایک لڑکا ہوگا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ کب اس گروپ میں ممبران کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔

پتہ مجھے تب چلا جب گروپ کے ایڈمن نے اپنی کہانی پوسٹ کی۔ اس نے بتایا کہ کیسے اس کا کتابوں کے ساتھ تعلق قائم ہوا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ اب وہ "کون سی کتاب چاہیے؟" کے نام سے ایک اور گروپ بھی شروع کر چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ پڑھنے والوں کو کوئی بھی کتاب درکار ہو تو وہ بازار سے جا کر اسے خریدے گا، پیک کرائے گا اور ڈاک خانے جا کر اس کے پتے پر روانہ کرائے گا۔

اس لڑکے کا یہ دعویٰ سن کر آزمانے کا سوچا۔ درخواست ڈال دی کہ Press in Chains تلاش کر دیں۔ یا پھر اس کا اردو ترجمہ "صحافت پابند سلاسل" کے نام سے چھپا ہے، وہ ڈھونڈ دیں۔ لیجیے جناب! دو دن بعد ہی پیغام آ گیا کہ مطلوبہ کتاب مل گئی ہے۔ خوشی بھی ہوئی اور اس نوجوان پر بہت سا پیار بھی آیا۔

تبھی میں نے اس نوجوان عمر فاروق سے ملاقات کی درخواست کی، جو اس نے مہربانی فرما کر قبول کی۔ انارکلی بازار لاہور میں حافظ جوس کارنر پر بیٹھ کر اس کی کہانی سنتا رہا اور اس کے خیالات سے متاثر ہوتا رہا۔ اب یہ 24 برس کا ہو چکا ہے لیکن مستقبل کی زندگی کے بارے میں نہایت پختہ اور طویل المدتی نظریات رکھتا ہے۔ اس میں سیکھنے کی لگن ہے۔ فوراً بہت سا پیسہ کمانے کی حرص میں مبتلا نہیں ہے۔ نام اور پہچان تو ابھی سے بنا چکا، وقت کے ساتھ ساتھ اپنا مقام بنانا چاہتا ہے اور وہ انتطار کرنے کے لیے بھی آمادہ ہے جو اپنا وقت آنے میں لگتا ہے۔ اس بات سے بھی واقف ہے کہ کامیابی بھلے دیر سے آئے، لیکن دیر پا ہونی چاہیے۔

اس کی کئی باتیں سن کر لگا کہ رابرٹ کایوساکی کی کتاب رچ ڈیڈ پور ڈیڈ پڑھ رکھی ہوگی۔ جب معلوم ہوا کہ ابھی وہ اس کتاب سے آشنا نہیں ہے تو حیرت ہوئی کہ پھر یہ لڑکا اس عمر میں معاشی حوالے سے اتنی آگے کی سوچ کیسے رکھتا ہے۔

عمر فاروق کے لیے بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں۔ وہ بہت ترقی کرے۔ اسے زندگی میں عزت، کامیابی اور بہت سکون ملے۔

Check Also

A Stitch In Time Saves Nine

By Syed Mehdi Bukhari