Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ruqia Akbar Chauhdry
  4. Itwar Ka Din Aur Samaji Sargarmiyan

Itwar Ka Din Aur Samaji Sargarmiyan

اتوار کا دن اور سماجی سرگرمیاں

ہمارے ہاں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ دوست احباب اپنی سماجی سرگرمیوں کیلئے اتوار کے دن کا انتخاب کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا کسی کے گھر ملنے جانا ہو، ادبی سرگرمیاں ہوں یا کوئی باہمی رابطے کیلئے ترتیب دی گئی پارٹیاں لوگ کوشش کرتے ہیں کہ چھٹی کا دن اس کام کیلئے مختص کریں تاکہ دوست احباب کیلئے تقاریب میں شرکت کیلئے آفیشلی ذمہ داری رکاوٹ نہ بنے۔

ورکنگ ڈیز میں لوگوں کا اپنے اپنے ورک پلیس سے نکلنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے اور سماجی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت میں رکاوٹ آتی ہے۔ ایک حد تک بات درست ہے لیکن مجھے اتوار کے دن ایسی سرگرمیوں سے سخت اختلاف ہے۔ ہم لوگ جانے کیوں چھٹی والے دن ایسی کسی سرگرمی کی وجہ سے دوستوں کو درپیش مشکلات کی طرف دھیان نہیں دیتے۔

ہم اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے کہ ہفتہ بھر کام کرنے والے لوگوں کیلئے ہفتے کے آخر میں ایک دن چھٹی کا اس لئے مختص کیا جاتا ہے وہ شخص اس ایک دن کو مکمل یکسوئی، سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے گھر والوں کے ساتھ بتا سکے۔

وہ ایک دن جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے فارمل روٹین کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا۔ وہ ایک دن جب ایک شخص اپنے کاروباری معاملات سے نکل کر، آفیشل ذمہ داریوں سے دور ہو کر صرف اور صرف اپنے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔

وہ ایک دن جب ایک باپ یا ملازمت کرنے والی خاتون یا تعلیم و ہنر کیلئے ہفتہ بھر کالج یونیورسٹی جانے والے طالب علم اسے اپنے گھر والوں کیساتھ گزارنا چاہتے ہیں اور یہ ان کا اور ان کے گھر والوں کا ایک دوسرے پہ حق بھی ہے ہم لوگ کوئی نہ کوئی سماجی سرگرمی ترتیب دیکر انہیں مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔

میرے خیال سے ہمیں خود کو اور اپنے احباب کو اس مشکل میں ہرگز نہیں ڈالنا چاہے۔ کیونکہ اگر وہ ہماری دعوت قبول کرنے سے انکار کریں تو دوستوں کی طرف سے سخت خفگی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔

میں ذاتی طور پر چھٹی والے دن کسی بھی قسم کی سماجی سرگرمی چاہے وہ ادبی ہو یا غیر ادبی، بہن بھائیوں، دوستوں رشتہ داروں سے میل ملاقات ہو یا شادی بیاہ کی تقاریب ان کے انعقاد کے سخت خلاف ہوں۔

چھٹی سے ایک دن پہلے کا دن، شام یا رات کو ایسی تقاریب کیلئے چننا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ کیونکہ چھٹی کا دن بھی اگر سماجی مصروفیت میں گزار دیا جائے تو لگتا ہی نہیں کہ آپ کو ایک دن کا بھی بریک میسر آیا ہو۔ اس دن نہ میں خود کسی کے گھر جانا چاہتی ہوں نہ اپنے گھر کسی کو دعوت پہ بلاتی ہو۔

خاص طور پر اگر خاتون خانہ بھی ورکنگ لیڈی ہو تو یہ اس کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ اسے ایک دن اپنے گھر کے معاملات دیکھنے اپنی ذات اور بچوں پر توجہ دینے آرام و سکون سے نہ گزارنے دیا جائے بلکہ وہ دن جو آرام کرنے کیلئے دیا گیا تھا اسے مہمان داری کرتے کچن میں مصروف رکھ کر گزارا جائے۔

اتوار کے روز تو عموماً مدد کرنے کیلئے گھروں میں کام کرنے والی ہیلپرز بھی دستیاب نہیں ہوتیں تو خاتون خانہ پہ دہری اور تکلیف دہ ذمہ داری آ پڑتی ہے کیونکہ اسے مہمانوں کیلئے نہ صرف کھانوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے بلکہ گھر کی صاف ستھرائی، برتنوں کی دھلائی جیسے بڑے اور وقت طلب کام بھی نمٹانے پڑتے ہیں۔

اس لئے چھٹی کے دن یہ دعوت اس کی ذات پہ ایک بہت بڑے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ مرد جو پورا ہفتہ کام کرتا رہا ہو اسے ایک دن اپنے آرام کیلئے میسر نہ آئے تو پورا ہفتہ طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ مزاج میں تھکاوٹ کی وجہ سے چڑچڑاپن آگے ہر طرح کی ذمہ داری کی ادائیگی میں رکاوٹ بنا رہتا ہے اور انسان وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا جو ایک دن کے ذہنی و جسمانی آرام کے بعد دکھائی جانی چاہیے تھی۔

انسان کے جسمانی کے ساتھ ذہنی سکون کیلئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ اسے کم از کم ایک مکمل دن ہر طرح کے سماجی رابطوں اور سرگرمیوں سے دور رکھا جائے۔۔

آپ کا کیا خیال ہے؟

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam