Nizami Street Baku (2)
نظامی سٹریٹ باکو (2)

ساحل میٹرو سٹیشن سے باہر نکل کر ہم دائیں طرف مڑے اور وہی کلاسک رشین دور کی تعمیراتی وراثت شروع ہوگئی، موٹی دیواریں، بڑی بڑی کھڑکیاں، اونچے کمرے اور وہ پتھریلی پرانی شان جو تصویروں سے نہیں، تاریخ سے آتی ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر عمارت ہمیں آنکھ مار کر کہہ رہی ہو "بیٹا، ہم نے انقلاب بھی دیکھے، اب ذرا تمھاری سیلفی پوزز بھی دیکھ لیں"۔ پہلے چوراہے پر بائیں جانب ایک پرکشش پارک تھا، لیکن شکیب نے دائیں مڑتے ہوئے کہا، "پارک بعد میں، پہلے چلتے ہیں دل کی سٹریٹ، نظامی سٹریٹ"۔ تھوڑا سا آگے جا کر جب نظامی سٹریٹ کا بورڈ نظر آیا تو دل کی دھڑکن بھی گویا تھوڑا ردھم بدل گئی۔
جیسے ہی ہم نظامی اسٹریٹ میں داخل ہوئے، یوں لگا جیسے کسی جادوئی دنیا میں قدم رکھ دیا، جہاں وقت رک گیا ہے اور خوشبوؤں نے جگہ سنبھال لی ہے، لوگوں کی چہل پہل تھی، لیکن وہ رش ایسا نہیں تھا جو دم گھونٹے، بلکہ وہ محبت بھرا شور تھا جو دل کو خوش کرے، جوڑوں کے ہاتھ ایک دوسرے میں، کافی کپ ایک ہاتھ میں اور سیلفی اسٹکس دوسرے ہاتھ میں، کوئی فوارے کے ساتھ تصویر لے رہا تھا، کوئی سٹریٹ موسیقار کی دھن پر رقصاں تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جو صرف ایک دوسرے کی آنکھوں میں مستقبل دیکھ رہے تھے، گویا کوئی رومانوی ڈرامہ لائیو نشر ہو رہا ہو۔
وہ چوڑی سڑک جو کالے پتھر سے بنی تھی اور جس پر آدھے چاند کی طرح سفید سنگِ مرمر کے نقش تھے، ایسا لگا جیسے کوئی فلکی مخلوق آسمان سے اتر کر زمین پر چاندنی بچھا گئی ہو اور جب نظریں بلند کیں تو دو طرفہ عمارتوں کے درمیان بلندی پر بندھی لوہے کی رسیاں، جن کے بیچ میں لٹکتے فانوس جھول رہے تھے، جیسے آسمان نے شادی رچا لی ہو اور ہر فانوس کسی آذری دلہن کی رسم مہندی کا حصہ ہو، پورا منظر ایک خواب جیسا لگا جیسے نظامی سٹریٹ کوئی عام سڑک نہیں بلکہ محبت، ثقافت اور تھوڑی سی شوخی کا مخلوط پلاٹر ہو جس میں ہر قدم پر کہانی، ہر نظر پر شاعری اور ہر لمحے میں تصویر چھپی ہو۔
سورج آہستہ آہستہ پگھلتا ہے، روشنی فانوسوں میں اترتی ہے اور فضا میں موسیقی گھل کر دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، یہ وہ لمحے ہیں جب سڑک صرف پتھر کی نہیں رہتی بلکہ جذبوں کی نرمی سے بنی ایک رومانوی راہداری بن جاتی ہے، نظامی اسٹریٹ کی شام نے ہمارے اندر کی کوئی کھڑکی کھول دی، جہاں روشنی فانوسوں سے نہیں، لمحوں سے نکل رہی تھی، جیسے ہی آسمان نارنجی سے نیلے میں بدلنے لگا، سٹریٹ کے بیچوں بیچ جھولتے فانوس روشن ہو گئے، جیسے ستارے آسمان چھوڑ کر زمین پر آ گئے ہوں، بس ذرا سا سٹائلش ہو کر، ہر طرف ہلکی ہلکی روشنی، دکانوں کے شیشوں میں جگمگاتے عکس اور چلتے لوگوں کی چہل پہل جیسے محبت کا کوئی میلوں پرانا جشن دوبارہ شروع ہوگیا ہو، پرفیوم کی خوشبو، کافی کی بھاپ اور کہیں دور سے آتی موسیقی کا جادو، سب کچھ اتنا مکمل، اتنا سینماٹیک کہ دل چاہا "اے زندگی، یہیں پر تھم جا، ٹھہر جا"۔
شکیب نے نہایت سنجیدگی، لیکن ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا "تم یہاں پہلی مرتبہ آئے ہو، اگر پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو موبائل کا انٹرنیٹ آف کرنا پڑے گا"۔ تجویز ایسی ہی تھی جیسے رومانس اور حکمت کو ایک جملے میں قید کر دیا جائے، دل نے تالیاں بجائیں، دماغ نے سر ہلایا اور ہم دونوں نے اپنے اپنے موبائل کا انٹرنیٹ آف کر دیا جیسے دو شہزادے اپنے تاج اتار کر رعایا میں گھل مل جانے کو تیار ہوں۔
اور پھر شروع ہوا شکیب کا "رومینٹک ٹور گائیڈ" موڈ، اُس نے نظامی سٹریٹ کی تاریخ ایسے بیان کی جیسے محبت کے خط میں تاریخ رقم ہو رہی ہو۔
"یہ سٹریٹ فارسی کے کلاسیکی شاعر، نظامی گنجوی کے نام پر ہے"۔
واہ بھئی، شاعر کے نام پر سٹریٹ ہو تو پھر ہر قدم پہ شاعری کا گماں ہوتا ہے، شکیب بولتا گیا، ہم سنتے گئے اور نظامی سٹریٹ ایک کہانی، ایک فلم، ایک خواب بن گئی۔
"ساڑھے تین کلومیٹر کی یہ سٹریٹ، جس پر صرف دل والے چل سکتے ہیں (اوہ سوری، پیدل والے!) مشرق سے مغرب تک جاتی ہوئی، جیسے وقت کو تھام کر لے جا رہی ہو، شیخ عبداللہ سٹریٹ سے شروع ہو کر بلیک سٹی میں شاہ اسماعیل خطائی کی یادگار کے قریب ریل روڈ پر ثابت اوروجوف سٹریٹ پر ختم ہوتی ہے، ٹریفک فری علاقہ فاؤنٹین سکوائر یعنی فوارہ چوک سے شروع ہو کر راشد بہبودوف سٹریٹ پر ختم ہوتا ہے، نظامی سٹریٹ کی پہچان آغا موسی ناغییف کا چار منزلہ گھر ہے جو 1911 میں تعمیر ہوا تھا، اس سٹریٹ پر ایسی بہت سی تاریخی عمارتیں ملیں گی جنہیں گنتے گنتے تھک جاؤ گے اور ہر عمارت کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔
نظامی اسٹریٹ بینکوں سے لے کر فیشن اسٹورز تک مختلف دکانوں کا گھر ہے اور یہ دنیا کی مہنگی ترین شاپنگ سٹریٹ میں سے ایک ہے، اس گلی میں جرمنی، ناروے، ہالینڈ اور آسٹریا کے سفارتخانوں کے ساتھ ساتھ آذربائیجان میں یورپی یونین کے وفد کی بلڈنگ بھی واقع ہے، 1859 میں شماخی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد 1864 میں باکو کو مرکزی گورنریٹ کی حیثیت دیکر ٹاؤن پلاننگ کاباقاعدہ کام شروع ہوا، تب 1959 کے شاہی حکم نامہ کے بعد اردگرد کے علاقوں سے آبادی کی یہاں ہجرت ہوئی، قلعے کی دیواروں کے شمالی حصے کے ساتھ نئے کاروانسرائے تعمیر کئے گئے، جن میں سے ہر ایک نے ایک پورے چوتھائی حصے پر قبضہ کر رکھا تھا، تجارتی قطاریں اور دکانیں تھیں، اس کے بعد شہر کا یہ حصہ مرکزی تجارتی علاقہ بن گیا اور اس کے لیے ایک مربوط تعمیراتی منصوبہ تیار کیا گیا، اس کی ذمہ داری قاسم بے حاجی بابایوف اور سینٹ پیٹرزبرگ کے انجینئروں اور معماروں کے ایک گروپ کو سونپی گئی"۔
جب نیٹ بند ہوتا ہے تو دل کا نیٹ ورک اور بھی تیز چلنے لگتا ہے، یوں لگا جیسے ہم کسی عاشق کے خط کا نقشہ پڑھ رہے ہوں، ایک لمحہ، ایک گلی اور دو دل۔۔ انٹرنیٹ سے آزاد، لیکن ایک دوسرے سے متصل، یہ کوئی عام واک نہیں تھی، یہ "آف لائن پریم کہانی" کا پہلا سین تھا، چاہو تو اسے "ڈیجیٹل ڈیٹوکس"، یا "نظامی نگری میں محبت کی پکنک" کہہ لو۔

