A Stitch In Time Saves Nine
اے سٹچ ان ٹائم سیوز نائن

بھارت کی جانب سے جارحانہ اعلانات کے بعد پاکستان کے فارن آفس کو منہ سے گُھنگُھنِیاں نکال کر ویسی ہی زبان میں جواب دینا ہوگا اور آئے گا۔ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھے گی اور کشیدگی کسی صورت باضابطہ جنگ میں نہیں ڈھلنے والی۔ دنیا ایسی جنگ افورڈ نہیں کر سکتی۔ بھارت جو خود ایشیا کی اُبھرتی ہوئی اکانومی ہے وہ جنگ افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہم تو تباہ حال ہیں بھارت نہیں ہے۔ پاکستان پر تو اس صورتحال میں وہ مقولہ صادق آتا ہے "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھے بھی لے ڈوبیں گے"۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا۔ بارڈر پر فوجیں ریڈ الرٹ ہوتیں ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر بیاناتی گولے داغتے ہیں۔ ٹینشن ہائی ہوتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ سب نارملآئز ہوتا جاتا ہے۔
بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ معطل نہیں کر سکتا۔ یہ گیدڑ بھبکیاں ہو سکتیں ہیں۔ مودی سرکار پاکستان مخالف جذبات اُبھار کر ہی مرکز میں آئی ہے۔ اس کی الیکشن مہم اسی نفرت پر مبنیٰ ہوتی ہے۔ وہ نفرت کی آگ سے اپنے ہاتھ سینکیں گے۔ یہ ان کو سُوٹ کرتا ہے۔
پہلگام میں جو ہوا وہ قابلِ مذمت ہے۔ صرف چوبیس گھنٹوں کے اندر پاکستان پر الزام دھر دینا دوگنا قابل مذمت ہے۔ شواہد کے بنا کسی بھی ملک پر الزام تراشی محض ڈھکوسلا ہوتی ہے۔ اس افسوسناک صورتحال میں بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا ہی مناسب ہے۔ بلکہ ایک قدم بڑھ کر جواب دیں۔ جب کوئی تُل ہی جائے سینگ پھنسانے کو تو پھر ایسے کو تیسا۔
آئندہ چند دنوں میں کشیدگی کافی بڑھ سکتی ہے۔ جبکہ ملک کے اندرونی سیاسی مسائل ہی سمیٹے نہیں جا رہے۔ ایک سیاسی طبقہ ریاستی مشینری سے باغی ہو چکا ہے، ایک بیزار ہو چکا ہے۔ جو حکومت میں ہیں وہ بے اختیار ہیں۔ ان کے کاندھوں پر تو اگلوں نے بوجھ لاد دیا ہوا ہے کہ اسے ڈھوتے رہو۔ انہوں نے بخوشی قبول بھی کیا ہوا ہے۔ جس ملک کے اندر بستے عوام کا اپنی فورسز کے ساتھ جذباتی و دلی ربط نہ رہے وہاں آپ بیرونی دشمن کو کیا کہہ سکیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فوراً اندرونی محاذ آرائی کو ختم کرنے والے اقدامات لیے جائیں۔ ضرورت پڑے تو آل پارٹی کانفرنس بلائی جائے۔ تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھیں۔ میں فوج کو سٹیک ہولڈر مانتا ہوں۔ کیا کریں؟ نظام ہی ایسا بن چکا ہے اب جو ہے سو ہے۔ زمینی حقائق سے انکار ممکن نہیں۔ فوج کا اونٹ خیمے میں گردن گھسا لے تو پھر باہر نہیں نکلا کرتا۔
صورتحال سنگین صورت اگر اختیار کرتی ہے تو بہت سے سیاسی معاملات کو سمیٹنا ہوگا۔ بھارت کو معلوم ہے پاکستان کے اندر عوامی مزاج کس قدر افواج سے نالاں ہے۔ انگریزی کا محاوہ ہے
A stitch in time saves nine
تحریک انصاف ہو، فضل الرحمٰن ہوں، اچکزئی ہوں، بلوچ یکجہتی کونسل ہو الغرض سب کو آن بورڈ لیں۔ عمران خان صاحب بات کرنا چاہتے ہیں اور تعاون بھی کریں گے۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ بات طاقت کے مرکز سے کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے ان کو کچھ دیں تو بدلے میں وہ ویسے ہی ہو جائیں گے جیسے اقتدار میں ہوا کرتے تھے۔ پھر سے سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ وہی خان صاحب ہوں گے اور وہی رونقیں بحال اور پھر جرنیل قوم کے ابو بن سکتے۔ اندرونی مسائل کو جتنا جلد سمیٹ لیا جائے اتنا ہی ریاست کے لیے سود مند ہوگا۔ وگرنہ خدانخواستہ پاک بھارت کشیدگی میں کسی بھی فریق کی جانب سے مس کیلکولیشن کا مظاہرہ کرتے کوئی بلنڈر کر دیا گیا تو اندرونی جنگ آپ پہلے سے ہی ہارے ہوئے ہیں۔
عنان حکومت کو سنبھالنے والے اور سیاسی قائدین سمیت ان کے فالورز سے گزارش ہی کر سکتا ہوں۔ کر رہا ہوں۔ ریاست اندرونی طور پر بیمار ہے کمزور ہے۔ باقی اس کمزور ریاست میں سب سیانے ہیں اور جہاں سب ہی سیانے ہوں اس ریاست کا صحتمند ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

