Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Hard State (3)

Hard State (3)

ہارڈ سٹیٹ (3)

بھارت میں اس وقت بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں 2014ء سے مسلسل بر سر اقتدار ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مودی اور بی جے پی کی مسلم دشمنی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کی 240 سیٹیں ہے اور ان 240 سیٹوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مودی آج بھی اپنے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے بود و باش اور حلیے کا مذاق اڑاتا ہے اور مسلمانوں پر دبے اور کبھی کھلے الفاظ میں تنقید کرتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بی جے پی نے ابھی تک بھارتی سیکولر آئین کو بدلنے یا بھارتی آزادی کے وقت سے قائم ریاساستی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش سے پورا بھارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔

ان تمام مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ کہ آپ ہمارے موجودہ نظام کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ ہمارے بڑوں نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا۔ اس ملک کیلئے لاکھوں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور ہجرت کا دکھ برداشت کیا، ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں اور متعدد ہماری ماؤں اور بہنوں نے اپنی عزتیں لٹنے کا دکھ سہن کیا۔ مگر انہیں اس ساری سرگرمی کا کیا خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوا؟ نا ہم نے اس ملک میں اسلام کو نافذ کیا، ناشریعت لاگو کی اور ناہی قرآن کو اپنا رہنما بنایا۔ سود سے لیکر ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ تک تمام غیر اسلامی کام یہاں آج تک ہورہے ہیں۔

1947ء سے لیکر 1970ء کے پہلے 23 سال ہم یہ فیصلہ تک نا کرپائے کہ اس ملک کو چلانا کیسے ہیں۔ ہم یہ فیصلہ کرنے میں بھی ناکام رہے کہ اس ریاست کی نوعیت اور منزل کیا ہوگی اور یہ ریاست کن رہنما اصولوں کے تحت اپنا راستہ طے کرکے اپنی منزل تک پہنچے گی آیا کہ اس ریاست میں اسلام کے سنہری اصولوں کی پیروی کی جائے گی کہ جس کا وعدہ ہمارے اباؤ اجداد سے کیا گیا تھا یا پھر جمہوریت اس ریاست کا نصب العین ہوگا۔

ہم یہ سب کام کرنے کی بجائے پاور پالیٹکس میں مصروف رہے۔ پہلے 20 یا 22 سال تک اقتدار عوامی نمائندوں اور کبھی فوجی آمروں کے درمیان جھولے کی طرح جھولتا رہا۔ 1970ء میں خدا خدا کرکے اس ملک کو ایک نظام کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور 1970ء میں پہلےانتخابات منعقد کروائے گئے مگر ہم نے اقتدار انتخابات جیتنے والی جماعت کو منتقل کرنے سے ہی منع کردیا۔ جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی ہوئی اور ملک دولخت ہوگیا۔ یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا سانحہ رونما ہوا ہوتا تو وہاں سارے اختلافات کو بھلا کر سچے دل سے توبہ کی جاتی اور ایک ہی بار میں یہ فیصلہ کیا جاتا کہ اب اس ریاست کو کیسے چلایا جائے گا۔ امریکہ، یورپ اور بھارت کی طرح ایک ہی بار ریاست کے سارے بڑے فیصلے کرلیے جاتے اور یہ طے کرلیا جاتا کہ کچھ بھی ہوجائے ریاست اب اپنے متعین راستے سے نہیں بھٹکے گی۔

مگر یہ ارض وطن ہے اور یہاں غلطیوں سے سیکھنے کی کوئی روایت سِرے سے موجود نہیں۔ 1973ء میں آئین کی تشکیل کے بعد ایک امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب یہ ملک جمہوری طور پر آگے بڑھے گا اور شاید اب ریاست اپنے راستے سے نہیں بھٹکے گی۔ مگر 1977ء میں ضیاءالحق صاحب نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ ضیاءالحق صاحب چونکہ مرد حق اور مرد مجاہد تھے اسلئے انہوں نے آئین اور جمہوریت کو پس پشت ڈالا اور اپنی مرضی اورمنشا کے عین مطابق تیار کی گئی شریعت کے مطابق ریاست کو چلانا شروع کردیا۔ انہوں نے 1971ء کے دردناک سانحے کے بعد بڑی مشکل سے تیار کیے گئے آئین اور جمہوری عمل کو راتوں رات ڈی ریل کیا اور ریاست کو اپنے "اسلامی" نقطہ نظر سے چلانے کے عمل کا آغاز کردیا۔

ضیاءالحق کی اس اسلامی ریاست میں سزا کے طور پر لوگوں کو سر عام کوڑے مارے جاتے تھے حالانکہ آئین کی رُو سے اس سزا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اسی اسلامی ریاست میں تھوک کے حساب سے مجاہدین تیار کیے گئے، امریکی سرپرستی میں جہاد لڑا گیا اور ملک میں لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی گئی جنہوں نے بعد میں اس ملک کو ایسے ایسے زخم دیئے کہ جن سے آج تک لہو رس رہا ہے۔ اس ملک میں افیون، غنڈہ گردی اور بندوق کاکلچر بھی ضیاءالحق صاحب کی اسی اسلامی ریاست کا تحفہ تھے۔ ضیاءالحق صاحب کے المناک حادثے میں موت کے بعد ایک بار پھر اس ریاست کی نوعیت بدلی اور میاں نواز شریف صاحب اور بے نظیر بھٹو دونوں اس ریاست کو اپنی اپنی پسند کی جمہوریت کے مطابق چلانے کی اپنی سعی کوشش کرتے رہے مگر ان کی یہ کوشش زیادہ دیر تک کامیاب ناہو سکی اور پرویز مشرف صاحب نے مارشل لاء لگا کر سب کو گھر کی راہ دکھادی۔

ہر فوجی آمر کی طرح مشرف صاحب کو بھی اپنے اقتدار کے طول کیلئے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں چونکہ امریکہ کو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنا تھا اسلئے اسے پاکستان ایک ایسی "اسلامی ریاست" کے طور پر چاہیے تھا جو چپ چاپ مذہب کے نام پر آگ کا دریا عبور کرنے پر راضی ہوجائے تو ضیاءالحق صاحب نے ریاست کو امریکہ کی منشا کے مطابق اسلامی بنادیا۔ مگر اب چونکہ امریکہ نے اپنے ہی تیار کردہ مجاہدین کے خلاف جنگ کرنا تھی اور افغانستان کو فتح کرنا تھا تو اس لئے اب امریکہ کو اسلامی نہیں بلکہ ایک "آزاد خیال پاکستانی ریاست" کی ضرورت تھی تو مشرف صاحب نے راتوں رات ریاست پاکستان کو آزاد خیال اور لبرل بنانے کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا گیا، تھوک کے حساب سے ٹی وی چینل کھولے گئے اور میڈیا کو آزاد کردیا گیا۔ تبھی ٹی وی ڈراموں میں اچانک سے عورتوں نے شلوار قمیض کی جگہ جینز اور ٹی شرٹ زیب تن کرنا شروع کردی اور ڈراموں کے موضوعات بھی یک دم سے اصلاحی کی بجائے بے ہودہ ہوگئے۔ تب سارے ملک کو ہی آزاد خیالی اور لبرل ازم کا سواد چکھنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔

مشرف صاحب لبرل اور آزاد خیال ریاست بناتے بناتے اتنا آگے بڑھ گئے کہ یہ سوچے سمجھے اور اس کا اندازہ لگائے بغیر کہ اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہونگے انہی مجاہدین کے خلاف جنگ شروع کردی کہ جن کو گذشتہ 40 سال سے ہم پال رہے تھے اور جن کے مدرسے پورے پاکستان میں موجود تھے۔ جو ہمارے دوست تھے وہ ایک دم سے ہمارے دشمن بن گئے اور مشرف صاحب کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ نے پاکستان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے، ہر شہر میں بم دھماکوں نے معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ معیشت کا بھی جنازہ نکال دیااور پاکستان ہر جگہ سے لہولہان ہوگیا۔

مشرف صاحب کے جانے کے بعد پھر کچھ عرصہ تک اس ریاست کو جمہوریت کی مرہم پٹی کی جاتی رہی تاکہ اس کے زخم بھر سکے مگر یہ کوشش بھی زیادہ دیر تک سود مند ثابت نا ہوسکی۔ آج کل اس ریاست کو ہارڈ بنانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ اصلاح پاکستانیوں کیلئے زیادہ کشش کا باعث اسلئے بھی ہے کہ انہوں نے یہ اصلاح پہلی بار سنی ہے کیونکہ اس سے پہلے صرف اسلامی ریاست اور لبرل ریاست کا تصور ہی انکے ذہنوں میں موجود تھا۔ اب یہ ہارڈ ریاست کیسی ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات ضرور ہے کہ کچھ عرصے بعد اس ہارڈ ریاست کا تصور بھی ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ہم کوئی نیا نظریہ لے آئیں گے۔

شاید یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسےجنرل سٹور بھی نہیں چلاتا جس طرح ہم ریاست کو چلانے کی پچھلے 75 سالوں سے کوشش کررہے ہیں۔ دنیا میں ریاستوں میں کی کئی اقسام ہیں جن میں فلاحی، مذہبی، لبرل اور سوشلسٹ نظریات کی ریاستیں سر فہرست ہے۔ آپ کوئی سی بھی ریاست اٹھالیں ان میں دو چیزیں آپ کو لازماً نظر آئے گی ایک انصاف اور دوسرا امن اور جن ریاستوں میں یہ دو نوں چیزیں موجود نہ ہو، وہ ناکام ریاستیں تصور کی جاتی ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں ہماری ریاست کے اندر موجود ہے تو ٹھیک، اگرموجود نہیں ہے تو پھر ہم کونسی ریاست ہے اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

ختم شد۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz