Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Nuts Aur Tankhwa

Nuts Aur Tankhwa

نٹس اور تنخواہ

میرے ایک ممدوح ہیں، وزن کم کرنے کا شوق چرایا تو انہوں نے ایک کھانے سے دوسرے کھانے تک کا وقفہ بڑھا دیا۔ دعویٰ کرنے لگے: "دن میں صرف ایک بار کھاتا ہوں"۔ لیکن جب اس "ایک وقت" کے کھانے کا مشاہدہ ہوا تو معلوم پڑا کہ وہ تین وقت کا کھانا ایک ہی نشست میں تناول فرما جاتے ہیں۔

یہ تو ہوا، لیکن جب انہوں نے خود اپنا وزن کم کرنا شروع کیا تو ہر فربہ شخص انہیں مزید موٹا لگنے لگا۔ جس کا وزن بڑھا ہوا ہوتا، یا بڑھوتری کی طرف مائل نظر آتا، وہ اسے وزن کم کرنے کی نصیحتیں کرنے لگتے اور اپنے آزمودہ نسخے بتاتے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب رات گئے انہیں "craving" ہوتی ہے تو وہ "nuts" کھا لیتے ہیں۔ جس ادا سے وہ "کریونگ" اور "نٹس" کہتے، بے ساختہ پیار بھی آتا اور رشک بھی۔ بلکہ پہلی بار جب یہ الفاظ سنے تو لغت دیکھنی پڑی۔ تب جا کر معلوم ہوا کہ "کریونگ" کا مطلب ہے شدید خواہش یا طلب اور "نٹس" سے مراد خشک میوے ہیں، جیسے بادام، اخروٹ وغیرہ۔

ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے کہ انہوں نے کھانے پکانے میں عام تیل کا استعمال چھوڑ دیا ہے اور صرف زیتون کا تیل (Olive Oil) استعمال کرتے ہیں۔ بڑا خوش کن منظر ہوتا جب وہ اپنے پند و نصائح سننے والوں کو بتا رہے ہوتے کہ روٹی وہ دن میں صرف ایک وقت ہی کھاتے ہیں اور ابھی آتے ہوئے انہوں نے زیتون کے تیل میں تلا ہوا انڈا چمچ سے کھایا ہے۔ اس کے بعد بس ایک کپ چائے پی ہے۔

سننے والے خوب مرعوب ہوتے۔ یہ گفتگو سنتے ہوئے دل ہی دل میں فیصلہ کرتا کہ ایک وقت آئے گا جب میں بھی زیتون کے تیل میں پکے ہوئے کھانے نوش جان کیا کروں گا اور بے وقت کی بھوک بہلانے کے لیے "نٹس" کھایا کروں گا۔

لیکن پھر میرے خیالوں، خوابوں اور زمینی حقائق کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا۔ زمینی حقائق یہ تھے کہ جس ادارے نے میری خدمات کے صلے میں ہر ماہ تنخواہ دینا تھی وہ کئی کئی ماہ کی تاخیر کرنے لگا۔ زیتون کا تیل اور خشک میوہ جات وہ انگور بننے لگے جو دسترس میں نہ ہوں تو کھٹے لگتے ہیں۔

بہرحال، میں اپنی امید کے درخت کو خوش فہمیوں کے پانی سے سینچتا رہا۔ سوچتا رہا کہ زیتون کے تیل اور میوہ جات کھانے کا تصور کبھی نہ کبھی حقیقت ضرور بنے گا۔ لیکن ایک روز خبر ملی کہ جو تنخواہ پہلے ہی ترسا ترسا کر دی جاتی تھی، اس میں بھی کٹوتی کر دی گئی ہے۔ یوں، میرے ارمانوں کی ٹمٹماتی لو بجھ کر رہ گئی، خوابوں کا قلعہ زمیں بوس ہوگیا، امیدوں کی چھت دھڑام سے آن گری، آنے والی زندگی کے ممکنہ نقشے پر جو نٹس اور olive oil جگمگا رہے تھے، وہ تاریک ہو گئے۔ میرے منصوبوں کا قطب مینار اندھیرے میں ڈوب گیا۔

جب یہ ہوا تو سمجھ آ گئی کہ شاید میری تمناؤں کا شجر یوں ہی سوکھا رہے گا۔

حالات کا اندازہ لگا کر ذہن نے تو فوراً ہار مان لی، لیکن نادان دل کیسے سمجھتا۔ بہت بہلایا اور سمجھایا کہ آس کے کچے دھاگے سے بندھی جو رقم بنیادی ضروریات پوری کرتی تھی، اب تو اس پر بھی چھریاں چل گئی ہیں۔ یہاں گندم کھانے کے لالے پڑے ہیں، تمہیں "نٹس" کی سوجھی ہے۔

زمینی حقائق سے ان جان دل اپنی ضد پر اڑا رہا تو مجھے ہار مانتے ہی بنی۔ پس انداز کی گئی پونجی دکان دار کو سونپ کر یہ بادام خرید لایا۔ لیکن اب اسے کھانے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔

سوچ رہا ہوں، مجھے ایک بادام کھانے کی ہمت نہیں پڑ رہی، ادارے اپنے ملازمین کا حق کیسے کھا جاتے ہیں۔

نوٹ: اس تحریر میں کچھ مبالغہ آرائی کی گئی ہے اور دو تین کرداروں کو ایک کردار میں بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا، اگر آپ کا ذہن کسی مخصوص فرد کی طرف جا رہا ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari