Budviat Ki Baqiat Aur Insaniat Ka Matam
بدویت کی باقیات اور انسانیت کا ماتم

حال ہی میں ایک ویڈیو نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عرب کے تپتے صحرا میں ایک ہرن کو چھوڑا گیا اور اس کے پیچھے چار کتے دوڑائے گئے۔ وہ ہرن، جس کی آنکھوں میں خوف کا سمندر موجزن تھا، اپنی بقا کی آخری رمق لیے دوڑتا رہا۔ صحرا کی پیاس سے جھلسا ہوا، تھکن سے چُور، مگر پھر بھی زندگی سے چمٹا ہوا۔ دوسری جانب انسانوں کے بھیس میں کھڑے وہ چہرے جنہیں کسی زمانے میں مہمان نوازی، شجاعت اور فطرت سے ہم آہنگی کی مثالیں سمجھا جاتا تھا قہقہے لگا رہے تھے۔ وہ ہرن کے درد کو تفریح سمجھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔
یہ منظر محض ایک مظلوم جانور کا تعاقب نہ تھا، یہ انسانیت کے زوال کا نوحہ تھا۔ وہ کتے، درحقیقت، حیوان نہیں، بلکہ انسان کی اندرونی وحشت کے پیکر تھے وہ نفس کی وہ درندہ صفت شکل جسے تہذیب کا ملمع چھپا نہیں سکا اور وہ قہقہے؟ وہ صرف ہنسی نہیں تھی، وہ ضمیر کے کفن پر آخری کیل تھی۔
یہ ویڈیو جدید عرب کی ترقی یافتہ عمارتوں، شاہراہوں اور چمکتے مراکزِ خریداری کے بیچ چھپی اس بدویت کی جھلک تھی، جو نہ صحراؤں میں دفن ہوئی، نہ وقت کی گرد میں مٹ سکی۔ یہ وہی بدویت ہے جو کسی زمانے میں قبیلوں کی شان ہوا کرتی تھی، مگر آج تہذیب یافتہ لباس میں لپٹی وحشت کی یادگار بن چکی ہے۔
عرب دنیا، جو کبھی علم، سخاوت اور عدل کا منبع ہوا کرتی تھی، آج بھی کچھ گوشوں میں ایسی سفاکیت کو محفوظ کیے ہوئے ہے جو کسی بھی انسان دوست ذہن کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ افسوس کہ ترقی نے ان کے ہاتھ میں جدید آلات تو دے دیے، مگر دل سے سنگینی نہ چھین سکی۔ بدو کا خیمہ خالی ہو چکا، مگر اس کی روح کہیں ان قہقہوں میں بسی دکھائی دیتی ہے۔
یہ سوال اب محض عرب سے متعلق نہیں رہا، یہ انسان کے اندر موجود اُس سیاہ خلا کا سوال ہے جو مہذب معاشروں میں بھی کبھی کبھار یوں ننگا ناچتا ہے کہ شرم بھی آنکھیں جھکا لے۔ کیا یہ وہی انسان ہے جسے اشرف المخلوقات کہا گیا؟ جسے زمین پر عدل کا پرچم تھامنا تھا؟ جسے رحم اور ایثار کی معراج پر پہنچایا گیا تھا؟
ہرن کی بےبسی اور کتوں کی درندگی کے درمیان جو اصل منظر پنہاں تھا، وہ انسان کے زوال کی داستان ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے اُس تہذیب پر، جو ظاہری ترقی کے باوجود باطنی طور پر بنجر ہو چکی ہے۔ ایک صحرائی ریت کی طرح، جو بظاہر نرم ہے مگر قدموں کو زخمی کر دیتی ہے۔
یہ تحریر محض ایک واقعے پر احتجاج نہیں، یہ انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ جب تک ہم اس نوعیت کے رویوں پر خاموشی اختیار کیے رکھیں گے، ہم بھی ان تماش بینوں کی صف میں کھڑے تصور کیے جائیں گے۔