Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Ishtehar Bazi Aur Hukumat

Ishtehar Bazi Aur Hukumat

اشتہار بازی اور حکومت

موجودہ دَور کو سائنسی، ایٹمی، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کا دور کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے پہلو بہ پہلو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجود دَور اشتہار بازی کا دَور ہے۔ ہر فرد، گروہ، جماعت، حکومت، اپوزیشن، تعلیمی ادارہ، حکومتی ادارہ، مذہبی ادارہ، اخبار، ٹی وی چینل اور ویب سائٹ اپنی اپنی اشتہار بازی میں مشغول ہے۔ گوئبل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ایک جھوٹ کو اس قدر وثوق سے اور اتنی زیادہ دفعہ مسلسل دہراؤ کہ لوگوں کو وہ جھوٹ سچ نظر آنے لگے۔ آج کل گوئبل کی یہ بات اتنی عام ہوگئی ہے کہ ہر فرد او ر حکومت اس کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

ہم آئے روز اکثر ایسے افراد سے ملتے ہیں جو بظاہر بڑی عجز و انکساری اور خاطر مدارت سے پیش آتے ہیں، لیکن ہم کو جلد ہی علم ہو جاتا ہے کہ ظاہری انکساری و ممنونیت کے پیچھے وہ شخص اپنی شرافت کو منوانے کی اشتہار بازی سے کام لے رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک لفنگا و بدمعاش شخص جب راستے پر چلتا ہے تو خواہ مخواہ اپنے بازو پھیلائے، قمیص کے بٹن کھولے، جھوم جھوم کر چلتا ہے اور جب بولتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک کسی دوسرے انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ نیز ایسا شخص اکثر صرف اس لیے لوگوں سے الجھ پڑتا ہے کہ لوگ اس کی بدمعاشی، غنڈہ پن، داداگیری کو بھول نہ جائیں۔

اسی طرز کا ایک دوسرا عمل بھی ہم آئے روز دیکھتے ہیں جب ایک شخص دانشوری کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل اونچی آواز میں بولتا جاتا ہے اور اپنے سامنے کسی کو بولنے تک نہیں دیتا مبادا اس کی دانشوری کا بھانڈا پھوٹ جائے۔ یعنی مسلسل اونچی آواز میں بول بول کر لوگوں کو انڈر پریشر رکھ کر اپنی دانشوری کا خبط ٹوٹنے نہیں دیتا۔ دفاتر میں ایسے کئی افراد دیکھے جا سکتے ہیں جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ درحقیقت یہ سب باتیں، لب و لہجہ، حرکات و سکنات اور اعمال ان اشخاص کی ذاتی اشتہار بازی کی منہ بولتی تصاویر ہوتی ہیں۔

اشتہار بازی کا ایک اور معروف طریقہ یہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی عام اور غیر معروف بندہ دوسروں کو اپنی اہمیت و ذات کا احساس دلانا چاہتا ہے تو اس وقت وہ دوسرے لوگوں پر بے جا اعتراضات کرنا شروع کر دیتا ہے اور یا پھر وہ کسی معروف اور خاص انسان کے کارناموں کو زیربحث لا کر انہیں حقیر اور نقص دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے ایک شخص کو کہا کہ دل کی بیماریوں کی وجوہات جسمانی کم جبکہ نفیساتی زیادہ ہوتی ہیں، اگر دل کی بیماریوں کو ذہن سے جھٹک دیا جائے یعنی وہم نہ پالا جائے تو ان کا حملہ ہونے کے خدشات کم ہو ں گے۔ شخص نے مجھے یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی کہ کیا میں ڈاکٹر ہوں؟ حالانکہ میں نے ایک عام بات گوش گزار کی تھی جو کہ کافی حد تک درست تھی۔ شخص کو نہیں معلوم کہ ڈاکٹر کے ساتھ مریض اور والی وارثوں کو خود بھی تھوڑا بہت ڈاکٹر بننا پڑتا ہے وگرنہ غیر ضروری ٹیسٹ کروانے پڑیں گے، ایک کی بجائے چار چار ادویات کھانی پڑیں گی اور بل چار گنا زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔

اشتہار بازی کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض بیماریوں کے اشتہار پڑھ کر بعض کم فہم انسانوں کو اس نقطہ نگاہ سے اپنی صحت پر شک ہونے لگتا ہے۔ گوگل سرچ انجن بھی اشتہار بازی ہی کے ذمرے میں آتا ہے۔ جب کسی بیماری بارے جانکاری لینے کے لیے سرچ کی جائے تو گوگل ایسا ڈیٹا مہیا کرتا ہے جس سے قاری کو ایسا لگتا ہے کہ ہو بہو یہی علامات اس میں موجود ہیں۔ یوں شخص خواہ مخواہ مریض بن کر ایک نامعلوم مرض کا علاج کروانے لگ جاتا ہے اور ان اشتہاری حکیموں اور ڈاکٹروں کی دوائیوں کی بدولت واقعی ہی اس مرض کا شکار بن کر رہ جاتے ہیں۔

حکومتی اشتہار بازی کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ یہی پائی جاتی ہے۔ آج کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں فرنٹ صفحات پر ہی پنجاب حکومت کے اشتہارات کی بھرمار ملے گی۔ اسی طرح معروف بڑی سڑکوں، چوراہوں، پُلوں اور کینال روڈ پر بڑے بڑے بورڈز، فلیکسز اور بینرز ہزاروں کی تعداد میں نظر آئیں گے۔ ان اشتہارات میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں مثلاً پچاسی ہزار سے زائد سٹریٹ لائٹس کی تنصیب، اسی کلومیٹر لمبی تین سو سڑکوں کی مرمت، تین سو سولہ کلومیٹر طویل سیوریج لائنز، چالیس ٹیوب ویلز کی تنصیب، سات سو اٹھائیس کلومیٹر طویل ساڑھے چھ ہزار گلیوں کی تعیمیر و مرمت، درجن سے زائد ڈسپوزل اسٹیشنز کی تعمیر، آغوش پروگرام، اپنی چھت اپنا گھر پروگرام وغیرہ وغیرہ۔ یہ صرف لاہور میں چل رہا ہے، باقی اضلاع میں بھی اسی قسم کی صورتحال ہے۔ یہی کچھ باقی صوبوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ان اشتہارات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ، اس بارے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کیونکہ عوام خاموش آواز میں کہہ رہی ہے بقول شاعر:

مِری بھی عمر گزری ہے انہی راہوں پہ چل کے
میں ٹھہرے پانیوں میں بھی بھنور پہچانتا ہوں

عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو اشتہارات پر نچھاور کرنا کسی حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ عوام بیروزگاری، غربت اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ حکومت ٹیکسوں کا پیسہ اپنی ذاتی مشہوری کے لیے پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ عموماً الیکشن کے موسم میں اشتہارات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جب کہ آج ایسا کوئی موسم نہیں ہے تو پھر پنجاب حکومت اشتہار بازی کیوں کر رہی ہے؟ اشتہار بازی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ایدھی کو تو اشتہارات کی ضرورت کبھی نہیں پیش آئی تھی بلکہ ان کی قابلیت نے ازخود اشتہارات کا کام دیا تھا۔

بہرحال ہم دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ حکومت اشتہارات پر سرمایہ کیوں صرف کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ممکن ہے کہ حکومت کو پتہ ہے کہ حقیقت کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، اس لیے اشتہارات کے ذریعے حقیقت کو ماند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری وجہ یہ گماں ہے کہ الیکشن موسم کا کوئی پتہ نہیں کہ کب شروع ہو جائے کیونکہ اسٹیبلیمنٹ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب موڈ بگڑ جائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ غریب دشمن فیصلوں مثلاً ہسپتالوں کو ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ، پنشن پر ڈاکہ، ماحولیاتی آلودگی میں صفر کامیابی، پیکا ایکٹ کا سکڈ میزائل، مختلف اداروں سے ملازمتیں کم کرنا اور ڈاؤن سائزنگ پردہ ڈالنے کے لیے اشتہارات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

چوتھی وجہ شاید زیادہ درست لگتی ہے کہ حکومت سرمایہ داروں کی ہے اور ایسی حکومت اپنے منافع کو چھپانے کے لیے اور غریبوں کے ہوکے بھرنے کے لیے اشتہارات کا سہارا لیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیف منسٹر صاحبہ کو اپنی اشتہارات کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہ محض پیسے کا ضیاع ہے۔ آج عوام اتنی بھولی نہیں کہ اشتہارات سے متاثر ہو جائے۔ عوام حقیقت میں کارکردگی دیکھ کر ہی فیصلہ کرے گی۔ عوام یہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ قابلیت و اہلیت کو کسی اشتہار، کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی، قابلیت ازخود اشتہار کا کام دیتی ہے۔ جہاں اشتہارات ہوں گے، وہاں پر قابلیت پر سوالات اٹھیں گے اور سب سے بڑھ کر حکومت کو اشتہارات کا اس لیے بھی سہارا نہیں لینا چاہیے کیونکہ عوام کواچھی طرح معلوم ہے کہ بقول علامہ اقبال:

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam