Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Badalte Nazriyat Aur Hum

Badalte Nazriyat Aur Hum

بدلتے نظریات اور ہم

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

آج تک کی تحقیق کے مطابق انسان کو وجود میں آئے تقریباََ تین لاکھ سال ہو چکے ہیں اور حضرت انسان کی زبان و بیان سے واقفیت پچاس ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے، یعنی انسان کے اظہارِ خیال کو زبان و بیان کا پیراہن دیے ہوئے پچاس ہزار سال سے زائد کا عرصہ نہیں گزرا۔

یہ اعداد و شمار تمام مذاہب کے لیے قابل قبول ہوں گے کیونکہ یہ کسی بھی مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں ہیں، یہ خالصتاً تاریخ دان اپنی تحقیق سے یہاں تک پہنچے ہیں۔

خیالات اور نظریات کی دستاویز جو دنیا میں موجود ہیں وہ چھ ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں ہیں، یعنی کہ اگر ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جائے کہ خیالات اور نظریات کی عمر صرف چھ ہزار سال کی ہے تو یہ کچھ غلط نہیں ہوگا۔

گویا اس سے پہلے حضرت انسان شاید خیالات تو رکھتا تھا لیکن اِن خیالات کو ایک جامع دستاویز کی صورت دینے کا اہل نہیں تھا، یعنی وہ خیالات صرف انفرادی سطح پر ہی موجود ہوں گے۔

اب تک حضرتِ انسان نے جو وقت گزارا ہے تین لاکھ سالوں میں سے صرف چھ ہزار سال خیالات و نظریات کی دنیا میں گزارا ہے، اِن چھ ہزار سالوں میں بھی نظریات و عقائد جن تبدیلیوں سے گزرے ہیں اور جن ارتقا کی منازل سے گزرے ہیں وہ بھی ایک تاریخ ہے۔

کوئی بھی ایک نظریہ چند سالوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکا یعنی نظریات، خیالات اور عقائد بھی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتے رہے ہیں اور گزرتے رہیں گے، ابھی نہ جانے کتنی منازل انہوں نے طے کرنی ہے اور عقلِ انسانی نے کون کون سے پہاڑ سر کرنے ہیں اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن بدلتے ہوئے خیالات اور نظریات میں حضرتِ انسان کی کیا حیثیت ہے، کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، کہیں انسان اِن میں الجھ کر ہی نہ رہ جائے اور اپنا راستہ ہی نہ کھو بیٹھے۔

لیکن یہ سب نظریات اور خیالات انسان ہی کی تو ایجاد ہیں، انسان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں، جوں جوں زمانے سے انسان گزرتا رہا ہے اِن خیالات میں تبدیلی آتی رہی ہے اور جوں جوں انسان کو زندگی کا تجربہ حاصل ہوتا گیا ہے وہ اپنے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِن کو بدل کر مزید آگے بڑھاتا رہا ہے اور بڑھاتا رہے گا۔

لیکن اِن بدلتے نظریات اور خیالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ خیالات اور نظریات صرف انسانی زندگی جو کہ اوسطاً ساٹھ ستر سال کی عطا کی گئی ہے اِس کے لیے ہی ہیں، اِس سے بڑھ کر انسان اِن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

اِس کے برعکس خدائے بزرگ و برتر کے قوانین اٹل ہیں مسلمہ ہیں، قدرت کے قوانین تین لاکھ سال پہلے بھی ایسے ہی تھے اور آج بھی ایسے ہی ہیں، اللہ تبارک و تعالی نے اِن میں کوئی ترمیم نہیں کی کوئی کمی بیشی نہیں کی۔

اگر سوچا جائے تو یہ بہت ہی حیرت انگیز بات لگتی ہے، جیسے بچے کے پیدا ہونے کا عمل اور پھر ماں کے پیٹ میں وقتِ تولیدگی اپنی جگہ پہ مسلمہ ہیں، غیر تبدیل شدہ ہیں، انسان اِن میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکا اور نہ ہی کر سکے گا۔

پیڑ اور پتے آج بھی اکسیجن فراہم کرتے ہیں اور لاکھوں سال پہلے بھی ایسے ہی انسان کی خدمت میں حاضر رہے ہیں۔

پانی خدائے بزرگ و برتر کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، وہ لاکھوں سال پہلے بھی انسان کو سیراب کرتا تھا اور آج بھی انسان کی پیاس پانی ہی بجھا سکتا ہے۔

لاکھوں سال پہلے بھی انسان کو بیماریوں کا سامنا تھا جن میں کچھ جان لیوا بیماریاں تھیں، جوں جوں وقت آگے بڑھا ہے انسان نے بہت سی بیماریوں پر قابو پا لیا ہے، لیکن اور نئی بیماریاں در آئی ہیں جو کہ آج بھی سائنسدانوں کے لیے چیلنج ہیں، اگرچہ شروع شروع میں انسان کی اوسطاً عمر کم تھی لیکن پھر طب کے شعبے میں ریسرچ کی بدولت اِس میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اب بھی یہ ساٹھ ستر سال سے زیادہ نہیں ہے۔

اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی چیزوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہے، جو کہ پیدائش کے بعد حضرت انسان پر وارد ہوتی ہیں، اِنسانی احساسات جیسے غم خوشی، محبت، آنسو، یاد یہ عطائیں لاکھوں سال پہلے بھی ایسے ہی تھی اور آج بھی ایسے ہی ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گی۔

ضرورت یہ ہے کہ انسانوں کے بنے ہوئے نظریات اور عقائد کو ثانوی حیثیت دی جائے اور اللہ تعالی کی کبریائی اور مشیت کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جائے کیونکہ اِس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، انسان کو ہتھیار ڈالنے پڑیں گے، سرنڈر ہونا پڑے گا، کیونکہ انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔

انسان اپنے نظریات و خیالات تو تبدیل کر سکتا ہے لیکن خدائی قوانین میں ترمیم صرف خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے، کبھی کبھار خدائے بزرگ و برتر اپنے قوانین میں ترمیم کرکے دکھاتا ہے ان برگزیدہ بندوں کے لیے جو کہ اُس کے محبوب ہیں، جیسے آگ کو گلنار بنا دینا، ایک اونٹ کا سرکار ﷺ کو حال دل سنانا، ایک درخت کا چلنے سے انکار کر دینا، محبوب کی قمیض کی خوشبو سے بینائی کا لوٹ آنا، سبحان اللہ۔

انسان کا اِن ترامیم، میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Jang Mein Sab Se Ziada Jhoot Bikta Hai

By Haider Javed Syed