Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Siasat Ya Ehsasiyat

Siasat Ya Ehsasiyat

سیاست یا احساسیت

یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کی آئندہ انتخابی معرکہ آرائی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہوگی۔ اس لیے ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مبینہ طور پر اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو منظم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ بڑھتا چلا جارہا ہے جو اس فلسفے کی تائید کرتا ہے کہ سیاست کا سارا دارومدار پیغام رسانی پر ہوتا ہے۔ لیکن صرف موثر اور نتیجہ خیز پیغام رسانی ہی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جس کے لیے بنیادی طور پر "رفتار" یعنی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا اور وہ بھی کم لاگت یعنی کم سے کم خرچہ کےذریعے مقصد کا حصول ممکن بنانا۔

ماضی میں اس مقصد کے لیے پرنٹ میڈیا پر انحصار کیا جاتا تھا۔ ہر سیاسی جماعت کا یا تو اپنا اخبار ہوتا تھا یا پھر مخصوص صحافی یہ کردار ادا کرتے تھے اور یہی ذریعہ سیاسی منشور، نظریہ اور سیاسی وابستگی کا اظہار بنتا تھا۔ سیاست دان اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ اپنے پرنٹ میڈیا سیل کے سپرد کر دیتے تھے۔ پھر ماس میڈیا بھی پرنٹ میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ لیکن آج سوشل میڈیا بڑی تیزی سے ان کی جگہ لے چکا ہے۔

یہ عام لوگوں کی سوچ ہے کہ سوشل میڈیا ہی تیز ترین، براہ راست اور درست معلومات کا ذریعہ ہے۔ موبائل کی ہر ہر فرد کے ہاتھ میں موجودگی اور اس بارے میں نوجوانوں کا خصوصی شوق اور اہم کردار ظاہر کرتی ہے جس کی باعث سوشل میڈیا سیاست کا مرکزی کردار بن کر ابھرا ہے۔ اب نوجوان اپنے شعور کے مطابق اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے نہ تو کسی اسٹیٹ، سیاسی پارٹی، اخبار، ٹیلی ویژن یا کارپوریشن کا محتاج ہے اور نہ ہی لیڈر اور عوام کے درمیان اہمیت جتانے والے پیشہ ور سیاسی کارکنوں کی بات سنتا ہے۔ ہر سیاسی لیڈر کا پیغام برہ راست سنا بھی جاتا ہے اور سمجھا بھی جاتا ہے۔ ہر وہ نوجوان جس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے وہ اپنی ذات میں ایک صحافی بھی ہے اور فوٹو گرافر بھی ہے۔

آج کا باشعور نوجوان براہ راست تعلق کا خواہاں ہے۔ وہ اپنے اور اپنے نمائندے یا لیڈر کے درمیان کسی سیاسی اتالیق کو حائل نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔ وہ اپنی بات خود کرنا چاہتا ہے جو مورثی اور دقیانوسی طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا۔ وہ سیاسی لیڈر تک اپنا ذاتی تعلق اور پہچان چاہتا ہے۔ اب بڑے بڑے مہنگے اشتہارات اور سیاسی مدد گاروں کی بجائے موبائل فون کے ذریعے لاکھوں فالوورز تک اپنا پیغام سیکنڈز میں پہنچایاجاسکتا ہے۔ اس عمل میں فرد معاشرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتا بلکہ اپنا ایک نیا حلقہ اور نئی برادری تشکیل کرتا ہے۔ سوشل میڈیا دنیا پر آندھی کی طرح چھا چکا ہے اور سیاست دانوں کے لیے اپنے حلقے تک رسائی اتنی آسان اور سستی آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اسی لیے سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہر سیاست دان کا بیانیہ اس کے ووٹر تک تیزی سے پہنچ رہا ہے۔ یہی سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے۔

اب سیاست کی بجائے احساسیت زیادہ اہم ہو چکی کیونکہ یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ احساسیت کے بغیر سیاست اس سوشل میڈیا کے دور میں ممکن نہیں رہی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پرانی سوچ اور دقیانوسی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ اب ہر آنے والا الیکشن نوجوانوں کا ہوگا کیونکہ ہرآنے والے دن کے ساتھ ساتھ نوجوان ووٹر کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا نوجوان بےحد حساس ہے اور سوشل میڈیا کے طفیل شعور کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ سچ اور جھوٹ کو خوب سمجھتا ہے پرانے سیاسی گرگوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتا۔ وہ سیاست اور احساسیت میں تمیز کرنا سیکھ چکا ہے اور یہ جانتا ہے کہ احساسیت ہی دراصل سیاست کی بنیاد ہے۔ جس کا مطلب حقیقی انسانی کیفیات کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا ہوتا ہے یا پھر محسوس کرنے کی استعداد یا صلاحیت ہوتی ہے یہ احساسیت لفظوں سے سے نہیں انسانی رویے اور برتاؤ سے ظاہر ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ نوجوانوں کی کل تعداد ہماری آبادی کا ستر فیصد تک جا پہنچی ہے جو اپنی اپنی الگ اور منفرد سیاسی و سماجی سوچ کے حامل ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ سیاست کی راستہ خدمت خلق اور خدمت انسانیت میں پوشیدہ ہے۔ مقبولیت کا راز لوگوں سے محبت میں پنہاں ہوتا ہے۔ سیاست رنگ بدلتی رہتی ہے لیکن احساسیت سدا بہار عروج و مقبولیت کا وہ گلشن ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی۔ درحقیقت آج کا نوجوان سیاسی عقیدت، شخصیت پرستی، اندھی تقلید کے گرداب سے نکل چکا ہے وہ ایسی فکری آزادی کا خواہاں ہےجہاں اسے اہمیت حاصل ہو جہاں اس کی اپنی پہچان ہو۔

گو الیکشن تو کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے لیکن پاکستان، پنجاب اور خصوصی بہاولپور ضلع میں ہمارے سیاست دانوں نے اپنی احساسیت کی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ جسے سوشل میڈیا کے ذریعے نمائیاں اور اجاگر بھی خوب کیا جا رہا ہے۔ سابقہ اور متوقعہ سیاستدان بھی یہ جان چکے ہیں کہ کچھ چیزیں سیاست سے ماورا ہوتی ہیں۔ انہیں اس بات کا دراک ہو چکا ہے کہ سیاست کا راستہ احساسیت کے معاملات سے ہو کر گزرتا ہے۔ گو کہ سیاست کا مقصد عوام میں مقبولیت اور اقتدار تک رسائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ان مقاصد کا حصول تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سیاست دان احساسیت کی راہ پر چلتا ہے۔ سیاست میں مقبولیت کا امتحان صرف الیکشن کے وقت ہوتا ہے جبکہ احساسیت کا سفر ہر وقت جاری رہتا ہے۔

آجکل ہر شادی، خوشی، غمی، جنازئے قل خوانی اور تعزیت کے موقعہ پر سیاستدانوں کی شرکت کا یکا یک بڑھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مقبولیت کی سیڑھیاں جذبہ احساسیت سے چڑھنا ہی ممکن ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو آج کا نوجوان معاشرے میں لا چکا ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آج کا ہر نوجوان اپنے لیڈر کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ اپنا دکھ بیان کرنا چاہتا ہے۔ اپنے لیڈر کو سننا چاہتا ہے وہ ان کے ساتھ یادگار تصویر بنوانا چاہتا ہے وہ اپنی پہچان کسی حوالے کی بجائے براہ راست خود کرانا چاہتا ہےاور اپنے لیڈر سے اپنے دل بات کرنا چاہتا ہے۔ مگر جونہی یہ لیڈران عوام کے درمیان پہنچتے ہیں ان کے ارد گرد ان کے مخصوص کارکن گھیر ڈال کر درمیان میں حائل ہو جاتے ہیں۔ جن کے حصار کے سامنے دل کی بات زبان پر لانا مشکل ہوتا ہے۔

احساسیت کا تقاضہ ہے کہ سیاسی لیڈروں اور متوقع قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنے ووٹر کے درمیان فاصلے کم کریں اور کم ازکم پبلک اورعوام کے درمیان ہوتے ہوئے نئے اور نوجوان ورکرز کو گلے لگا ان کی محبت کا جواب محبت اور اپنائیت سے دیں تاکہ انہیں بھی اپنے محبوب قائد سے اپنایت اور محبت کا اظہار کرنے کا موقعہ مل سکے۔ تاکہ وہ اپنی ہر بات اور خواہش کسی سیاسی کارکن کے حوالے کی بجائے براہ راست ان تک پہنچا سکیں۔

سیاستدانوں کے مخصوص پکے اور پرانے کارکن تو ہمیشہ ہر جگہ ہی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ نئے اور نوجوان لوگوں کو ان کے قریب آنے دیں۔ سیاستدان چاہے اقتدار میں ہوں یا پھر اقتدار سے باہر احساسیت کا سفر جاری رہنا چاہیے کیونکہ جدید سیاست احساسیت کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ جدید سیاست کی ڈگر بدل چکی ہے۔ آج سوشل میڈیا اور کیمرے کی آنکھ سب کچھ دیکھ بھی رہی ہے اور ریکارڈ بھی کر رہی ہے۔ اب بلند وبانگ نعروں، لچھے دار تقریروں اور سیاسی جوڑ توڑ کا وقت گزر چکا ہے اب تو صرف احساسیت کے ذریعے عملی خدمت اور محبت سے ہی دل جیتے جا سکتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan