Do Hamsaye Aik Kahani
دو ہمسائے ایک کہانی

بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے 1947 میں آزادی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ان کے باہمی تنازعات میں سب سے اہم اور دیرینہ تنازع رہا ہے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً مذاکرات اور سفارتی روابط کی بحالی کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن بداعتمادی کی فضا آج کے دن تک قائم ہے۔ دونوں ممالک کے عوام میں دوستی اور ثقافتی روابط کی خواہش موجود ہے۔
کرکٹ اور دیگر کھیل جیسے کبڈی اکثر دونوں قوموں کو عارضی طور پر قریب لاتے ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی بعض اوقات کشیدگی کو بڑھاتا ہے اور بعض اوقات امن کی آواز کو اجاگر کرتا ہے۔ سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردی کے واقعات اکثر تعلقات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ عالمی برادری دونوں ممالک پر زور دیتی ہے کہ وہ تنازعات کا حل پرامن مذاکرات کے ذریعے نکالیں۔ اگر دونوں ممالک باہمی احترام اور رواداری کو فروغ دیں تو جنوبی ایشیا میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے عوامی تعلقات کی جڑیں صدیوں پرانی تہذیبی اور ثقافتی وراثت میں پیوست ہیں۔ برصغیر کی مشترکہ تاریخ نے دونوں ممالک کے لوگوں کو زبان، کھانوں، موسیقی، ادب اور رسوم و رواج میں ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے دونوں اقوام صدیوں تک ایک ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کے عقائد و اقدار کو تسلیم کرتی رہیں۔ تقسیم کے بعد اگرچہ سیاسی کشیدگی نے راہیں جدا کیں، لیکن عوامی سطح پر رابطے ہمیشہ باقی رہے۔
معروف شعرا، ادبا، فنکار اور گلوکار دونوں جانب یکساں مقبول ہیں۔ کئی خاندان تقسیم ہند کے بعد بچھڑ گئے، مگر ان کے دل آج بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ ویزا پابندیاں اور سرکاری رکاوٹوں کے باوجود لوگ میل جول کے لیے مختلف پلیٹ فارمز تلاش کرتے ہیں۔ سماجی میڈیا اور آن لائن فورمز نے حالیہ برسوں میں عوامی رابطوں کو نئی زندگی دی ہے۔ مذہبی زیارتوں کے مواقع بھی ان تعلقات کو فروغ دیتے ہیں۔ اگر ان عوامی روابط کو فروغ دیا جائے تو یہ سرکاری سطح پر امن و ہم آہنگی کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی تاریخ قیامِ پاکستان سے پہلے کی مشترکہ اقتصادی سرگرمیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل دونوں خطے ایک ہی تجارتی نظام کا حصہ تھے جہاں اشیاء کی آزادانہ نقل و حرکت ممکن تھی۔ آزادی کے بعد، ابتدائی برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت جاری رہی اور پاکستان نے اپنی درآمدات کا بڑا حصہ بھارت سے حاصل کیا۔ تاہم، سیاسی کشیدگیوں اور جنگوں کے باعث تجارتی تعلقات کئی بار منقطع یا محدود ہو گئے۔ 1970 کی دہائی میں تجارت مکمل طور پر بند کر دی گئی، لیکن بعد میں کچھ زمینی اور فضائی راستوں سے اسے جزوی طور پر بحال کیا گیا۔
1996 میں بھارت نے پاکستان کو "موسٹ فیورڈ نیشن" (MFN) کا درجہ دیا، لیکن پاکستان نے اس کا باقاعدہ جواب نہ دیا۔ دونوں ممالک کے تاجروں اور کاروباری حلقوں نے بارہا باہمی تجارت کو فروغ دینے کی حمایت کی ہے۔ واہگہ بارڈر اور دیگر زمینی راستے تجارت کے محدود مگر اہم ذرائع بنے رہے۔ دونوں ممالک میں غیر رسمی تجارت بھی ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، جو مختلف پابندیوں کے باوجود جاری ہے۔ اگر سیاسی اعتماد بحال ہو جائے تو دوطرفہ تجارت جنوبی ایشیا میں معاشی ترقی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں کی تاریخ دونوں ممالک کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوگئی۔ پہلی جنگ 1947-48 میں کشمیر کے مسئلے پر ہوئی، جو اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی پر ختم ہوئی۔ 1965 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک اور بڑی جنگ ہوئی، جو پھر سے کشمیر کے تنازعے پر لڑی گئی اور بالآخر تاشقند معاہدے کے تحت ختم ہوئی۔ 1971 میں تیسری جنگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی، جو پاکستان کے لیے ایک بڑا سانحہ ثابت ہوئی۔ 1999 میں کارگل کی لڑائی ہوئی جو محدود پیمانے پر تھی مگر دونوں ممالک کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد شدید خطرات کی حامل تھی۔
ان جنگوں کے باوجود کئی مرتبہ جنگ کے دہانے سے واپسی ہوئی، جن میں سب سے نمایاں 2001 کے بھارتی پارلیمنٹ حملے اور 2019 کے پلوامہ واقعے کے بعد کا تناؤ تھا۔ جنگوں نے دونوں ممالک کے وسائل کو بری طرح متاثر کیا اور انسانی جانوں کا بڑا نقصان ہوا۔ ان جھگڑوں کے نتیجے میں دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا، جبکہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبے پیچھے رہ گئے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے ہمیشہ دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ پرامن طریقے سے مسائل کا حل نکالیں۔ اگر ماضی کے اسباق سے سیکھا جائے تو جنگ کی بجائے مکالمہ ہی مستقبل کے لیے بہتر راستہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر جھڑپوں کی تاریخ جنگوں کے علاوہ ایک مستقل کشیدگی کی عکاس رہی ہے۔ کنٹرول لائن (LOC) اور بین الاقوامی سرحد پر وقفے وقفے سے فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ 2003 میں دونوں ممالک کے درمیان فائر بندی کا ایک معاہدہ ہوا جس سے کچھ عرصے کے لیے امن قائم ہوا۔ تاہم وقتاً فوقتاً اس معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، خاص طور پر کشمیر کے حساس علاقوں میں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں طرف نہ صرف فوجی بلکہ عام شہری بھی جانی نقصان کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
2016 میں اڑی حملے کے بعد بھارت نے "سرجیکل اسٹرائیکس" کا دعویٰ کیا، جس کے بعد سرحدی کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی کارروائی نے سرحدوں پر تناؤ کو مزید بڑھا دیا۔ دونوں ممالک اکثر ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں، جس سے امن کی کوششیں متاثر ہوتی ہیں۔ ان جھڑپوں کا سب سے زیادہ نقصان سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو اٹھانا پڑتا ہے، جنہیں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اگر سرحدی کشیدگی کو ختم کرکے مستقل امن قائم کیا جائے تو دونوں قوموں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کی ثقافتی تاریخ میں فنونِ لطیفہ، موسیقی اور فلم کا اہم مقام رہا ہے۔ تقسیم سے پہلے دونوں ممالک کے فنکار، گلوکار اور ادیب ایک ہی خطے میں رہتے تھے اور ان کی تخلیقات پر یکساں اثرات مرتب ہوتے تھے۔ 1947 کے بعد بھی دونوں ممالک کی موسیقی اور فنون میں ایک دوسرے کا اثر برقرار رہا۔ پاکستانی غزل، قوالی اور کلاسیکی موسیقی بھارتی موسیقی سے متاثر رہی ہے اور بھارتی فلم انڈسٹری، بالی وڈ، نے پاکستان کے اداکاروں اور گلوکاروں کو ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کیا۔ لاتا منگیشکر اور محمد رفیع جیسے گلوکار دونوں ممالک میں یکساں مقبول ہیں۔
1950 کی دہائی میں لالی ووڈ پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی جبکہ بھارت کی بالی وڈ بھی عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا چکا تھا۔ دونوں ممالک کے اداکاروں اور ڈائریکٹروں کی مشترکہ تاریخ ہے۔ پاکستانی فلموں اور ڈراموں نے بھارت میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اسی طرح بھارتی فلموں نے پاکستانی عوام میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے، خصوصاً 1960 کی دہائی سے لے کر آج تک۔ دونوں ممالک میں باہمی فنون کا تبادلہ، سرحدوں اور دیگر دوریوں کے باوجود ایک مثبت قدم ثابت ہوا ہے اور اگر یہ رابطے مزید مستحکم ہوں تو دونوں ممالک کے فنون میں نیا جوش اور روح پھونکی جا سکتی ہے۔

