Thar Ki Sargoshi
تھر کی سرگوشی

"اللہ داد اپنی ذات کبھی نہ بھولا تھا۔ وہ چوکڑا تھا جن کی نسلیں صدیوں سے چوری کرتی آئی ہیں۔ اس کے آبا و اجداد محنت سے روزی کمانے لگے تھے۔ لیکن محنت سے روزی کمانے کے باوجود انھیں عزت نصیب نہ ہوئی۔ وہ نسل در نسل چور ضرور تھے لیکن عزت کے لیے جان بھی دے سکتے تھے اور لے بھی لیتے تھے اور یہ رسم ان کے ہاں نسل در نسل چلی آرہی تھی کہ عورت کو بدچلنی کے شبے میں کاروکاری کرنا جائز ہے"۔
یہ پیراگراف ناہید سلطان مرزا کے ناول تھر کی خاموشی کا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر یہ جملے منتخب کیے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ ناول کی تھیم کیا ہے۔
یہ ایک لڑکی رانی کی کہانی ہے، جس کی بہن محبت کے جرم میں خودکشی کرچکی ہے۔ بھائی ایک ہندو لڑکی کو بھگا لایا۔ لیکن پھر اسے، یعنی ایک مسلمان لڑکی کو ہندو لڑکے کے ساتھ دیکھ کر خاندان کا الٹا ردعمل ہوا۔ لڑکا مار دیا گیا اور لڑکی کو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔
تھر کی کہانی ہے تو اس میں صحرا کا حسن ہے، مورنی کا ناچ ہے، بھوک پیاس ہے، ان کے ساتھ ہندو مسلم تفریق ہے اور خوبصورت سندھ کے ماتھے کا بدنما داغ یعنی کاروکاری بھی ہے۔ ناہید صاحبہ نے تھر کی شاندار منظرکشی کی ہے۔ اس کی پوری تصویر دکھائی ہے۔
مجھے تھر سے محبت ہے۔ گیارہ سال پہلے روزنامہ جنگ میں سو لفظوں کی پہلی کہانی تھر کے بارے میں چھپی تھی۔ حکمرانوں نے بہت عرصے تک تھر کو نظرانداز کیا۔ پھر کچھ توجہ نصیب ہوئی لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تھر کی خاموشی نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے۔
ناہید صاحبہ سے میری ایک مختصر ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے مکمل یقین نہیں لیکن شاید بھائی عقیل عباس جعفری کی بیٹی کی شادی میں ہم ملے تھے۔ البتہ فیس بک پر خوب رابطہ رہتا ہے۔ آج کل وہ اپنی بیٹی کی شادی کی تقریبات میں مصروف ہیں۔
دو سال پہلے میں نے ان سے درخواست کی کہ بھائی عارف امام کراچی میں ہیں تو ان کے ہاتھ اپنا نیا ناول بھجوادیں۔ انھوں نے سارے ہی ناول دے ڈالے۔ کچھ ایسا ہوا کہ عارف بھائی وہ کتابیں نہیں لاسکے۔ وہ مجھے کافی عرصے بعد ڈی ایچ ایل سے منگوانی پڑیں۔ جب تک ناول پہنچے، میں یونیورسٹی کے چنگل میں پھنس چکا تھا۔
اب یہ ناول پڑھا اور دل خوش ہوا۔ رضیہ بٹ اور عمیرہ احمد جیسی خواتین کے ناول پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن آمنہ مفتی اور ناہید سلطان مرزا مختلف قسم کی رائٹرز ہیں۔ آپ انھیں پڑھیں گے تو سوچ کے نئے در کھلیں گے۔
ناہید صاحبہ پروفیشنل صحافی رہی ہیں اور بڑے اخبارات میں کام کیا ہے۔ ناولوں کے علاوہ سفرنامے بھی لکھے۔ پانچ دستاویزی فلمیں بناچکی ہیں۔ آپ نے پی ٹی وی یا دوسرے چینلوں پر وہ ڈاکومنٹریز ضرور دیکھی ہوں گی جو ایام محرم میں کربلا اور شام کی زیارات کراتی ہیں اور جن میں ضیا محی الدین کی نیریشن ہے۔ ان دستاویزی فلموں میں انھیں ناہید ہادی کے نام سے کریڈٹ دیا گیا ہے۔