Tehzeeb Ki Kahani
تہذیب کی کہانی

کریٹیکل تھنکنگ یا تنقیدی سوچ پیدا کے لیے درست تاریخ کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کرنا چاہیے۔ مذہب پر گفتگو کے لیے تو یہ ازحد ضروری ہے۔ آج پاکستان میں مذہب نے عوام کے دماغ ماوف کر رکھے ہیں تو اس کی وجہ تاریخ کی ڈسٹورشن یعنی اس کا مسخ ہونا ہے۔ اسلامی تاریخ یا مسیحی تاریخ یا کسی بھی مذہب کے نقطہ نظر سے لکھی گئی بیشتر کتابوں کو مسخ تاریخ کے زمرے میں رکھنا چاہیے۔
میں امریکا میں ہائی اسکول کے بچوں کو انگریزی ادب اور تاریخ پڑھاتا ہوں۔ ان دونوں میں ایسی کتابیں شامل ہیں جو امریکا کے خلاف ہیں لیکن اس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ مثلاََ تاریخ میں سیاہ فام غلاموں کے ساتھ سلوک بتایا جاتا ہے۔ میں آج کل نویں کے بچوں کو ناول پڑھارہا ہوں جس کا عنوان ہے، دے کالڈ اس اینیمی یعنی وہ ہمیں دشمن کہتے تھے۔ اس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی امریکیوں کے ساتھ امریکی حکومت کے بدتر سلوک کو عیاں کیا گیا ہے، حالانکہ جنگ میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جب تک ہمارے ہاں ایسی کتابیں لکھی اور پڑھی نہیں جائیں گی، ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جاسکتا۔
میں مذہب کی بات کر رہا تھا۔ بعض دوست مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ مذہبی تاریخ جاننے کے لیے کون سی کتابوں کو پڑھنا چاہیے۔ میں انھیں بتاتا ہوں کہ مذاہب کے بارے میں جاننا ہے تو مڈل ایجز یعنی قرون وسطی سے متعلق کتابیں پڑھیں، جب اسلام کا ظہور ہوا تھا اور دوسرے الہامی مذاہب تشکیلی دور سے گزر رہے تھے۔ اسی لیے ول ڈیورنٹ نے اپنی سیریز دا اسٹوری آف سولائزیشن میں اس زمانے کو دا ایج آف فیتھ کا نام دیا۔ اگر آپ امریکا اور یورپ کی لائبریریوں، تحقیقی اداروں اور ان کی کتابیں چھاپنے والے پبلشرز کی ویب سائٹس دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ کام اسی دور پر ہوتا ہے۔
ہمارے یاسر جواد نے اسٹوری آف سولائزیشن کو ترجمہ کرنے کا بھاری پتھر اٹھایا ہے اور مستقل مزاجی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ تہذیب کی کہانی کی تین جلدیں پہلے ترجمہ کرچکے ہیں جن کے عنوان ہمارا مشرقی ورثہ، قدیم یونان اور روم کا عروج اور مسیحیت ہیں۔ اب چوتھی جلد اسی قرون وسطی کے ایچ آف فیتھ سے متعلق ہے جس کا عنوان انھوں نے عصر ایمان رکھا ہے۔
آپ مطالعے کے شوقین ہیں یا میری طرح بک ہورڈنگ کرتے ہیں، بہرحال آپ کو یہ سیریز خریدنی چاہیے اور اپنے ڈرائنگ روم میں سجانی چاہیے۔ اگر آپ مذہب کے تشکیلی دور کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پھر کم از کم چوتھی جلد کا مطالعہ ضرور کریں، ورنہ یا تو ماوف دماغ کے ساتھ زندگی بھر بے شک بے شک کرتے رہیں گے، یا مذاہب پر جملے کستے رہیں گے۔ تاریخ پڑھے بغیر آپ کوئی علمی بات نہیں کرسکتے۔
عصر ایمان کی قیمت چھ ہزار روپے ہے جو ممکن ہے کچھ لوگوں کو زیادہ لگے لیکن کاغذ اور پرنٹنگ جس قدر مہنگی ہوچکی ہے اور اس کتاب میں جس قدر قیمتی مواد ہے، یہ اب بھی سستی ہے۔ کوشش کیا کریں کہ ادیبوں، شاعروں اور مترجموں سے ان کی کتابیں براہ راست خریدیں تاکہ اس جاہل اور بے رحم سماج سے وہ شکست نہ کھا جائیں، بلکہ حوصلہ پاکر علم کی شمعیں جلاتے رہیں۔