Tuesday, 29 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Psl Ka Boycott

Psl Ka Boycott

پی ایس ایل کا بائیکاٹ

پاکستان سپر لیگ کا دسویں ایڈیشن ان دنوں جاری ہے، جہاں دھواں دار چھکے اور گیندوں کی بارش دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بلاشبہ معیار کے اعتبار سے پی ایس ایل دنیا کی بہترین کرکٹ لیگ بن چکی ہے۔ دنیا بھر کے معروف کھلاڑی اس میں حصہ لے رہے ہیں اور یہاں تک کہ کئی غیر ملکی کھلاڑیوں نے پی ایس ایل کو بھارت کی آئی پی ایل پر ترجیح دی ہے، باوجود اس کے کہ آئی پی ایل پیسوں کی چکا چوند کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس بات پر ہر پاکستانی کو فخر ہونا چاہیے کہ پی ایس ایل نے صرف ایک اسپورٹس ایونٹ کے طور پر نہیں بلکہ ایک قومی برانڈ کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔

مگر اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر بدترین ظلم اور بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ دل دہل گئے۔ دنیا بھر میں شعور رکھنے والے انسانوں نے آواز بلند کی اور اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ شروع کیا جو کسی بھی شکل میں اسرائیل سے جڑی ہوئی ہیں یا وہاں کی معیشت کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ ایسے میں یہ خبر نہایت افسوسناک ہے کہ پی ایس ایل میں شامل کچھ اسپانسرز کا تعلق ایسی ہی بین الاقوامی کمپنیوں سے ہے جن پر اسرائیل کی حمایت کا الزام ہے یا وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسرائیلی ریاست کی مالی معاونت کر رہی ہیں۔

ایسے نازک اور حساس موقع پر پی ایس ایل کی انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ وہ سنجیدگی اور قومی جذبات کی قدر کرتے ہوئے احتیاط سے فیصلے کرتی۔ جب پوری دنیا میں اسرائیلی بائیکاٹ کی مہم زوروں پر ہے، جب سوشل میڈیا پر BDS Movement" (Boycott, Divestment and Sanctions) جیسی عالمی تحریکیں سرگرم عمل ہیں، جب مسلم دنیا سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں، تب پی ایس ایل جیسے قومی ایونٹ میں ایسی کمپنیوں کی شمولیت باعثِ افسوس ہے۔

اس رویے نے نہ صرف پاکستانی عوام کو مایوس کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی دکھی کیا جو کرکٹ کو اپنی اجتماعی خوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار اسٹیڈیمز میں وہ رونق نہیں جو ماضی میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ خالی کرسیاں اور سنسان گیلریاں سوال اٹھا رہی ہیں کہ کیا پی ایس ایل عوام سے کٹ رہا ہے؟ کیا یہ برانڈ اب صرف کاروباری مفادات کی نذر ہو رہا ہے؟

افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس بے رخی پر انتظامیہ کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ الٹا میڈیا اور حکومتی نمائندے اس کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ پارکنگ کے مسائل ہیں، گرمی زیادہ ہے یا پاکستانی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن ہے، اس لیے عوام دلچسپی نہیں لے رہے۔ یہ جواز عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ یہ پی ایس ایل کا دسویں ایڈیشن ہے، اس سے پہلے نہ تو پارکنگ قریب تھی، نہ موسم ہمیشہ خوشگوار رہا اور نہ ہی ٹیم کی کارکردگی مستقل اچھی رہی، مگر پھر بھی عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔

اصل مسئلہ عوام کے جذبات اور دینی وابستگی کو نظر انداز کرنا ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کے جذبے نے پاکستانی قوم کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا ہے۔ جب بین الاقوامی کھلاڑی بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، جب ہالی ووڈ سے لے کر فٹبال کلبز تک بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں، تب ہمارے ملک کی قومی لیگ میں ایسی کمپنیوں کو جگہ دینا یقیناً بے حسی کی علامت ہے۔

ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ صرف کرکٹ کے میدانوں کو آباد نہ کریں بلکہ دلوں کو بھی جوڑیں۔ کرکٹ کا جشن تبھی مکمل ہوگا جب عوام خود کو اس کا حصہ سمجھیں گے، جب وہ سمجھیں گے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور جب انہیں احساس ہوگا کہ ان کے مذہبی اور اخلاقی جذبات کی لاج رکھی جا رہی ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ اسپانسرشپ صرف پیسے کے ترازو پر نہ تولی جائے بلکہ اس میں عوامی حساسیت، قومی غیرت اور عالمی حالات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل آنے والے سالوں میں بھی اسی شان سے جاری رہے، تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ صرف ایک کاروباری ایونٹ نہ بن جائے بلکہ ایک قومی فخر کا نشان رہے، جہاں کھیل کے ساتھ ساتھ اصول، اخلاق اور شعور کا بھی بول بالا ہو۔ جب تک ارباب اختیار ان باتوں کو نہیں سمجھیں گے، تب تک خالی اسٹیڈیم ہمیں یہی پیغام دیتے رہیں گے: "جذبات کا سودا نہیں ہوتا"۔

Check Also

Kitchen Aur Water Recycle

By Maimoona Majeed