Thursday, 24 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ruqia Akbar Chauhdry
  4. Raakh Hoti Manzilain

Raakh Hoti Manzilain

راکھ ہوتی منزلیں

ایک سچا قلمکار اپنے اردگرد کے ماحول سے کبھی لاتعلق نہیں رہتا، رہ ہی نہیں سکتا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اصل ادیب ہوتا ہی وہی ہے جو اپنے ادب کے ذریعے سماج اور اپنے ماحول کی درست عکاسی کرے۔ زمینی حقائق پہ بات کرے معاشرے کے بدصورت رویوں سے پردہ اٹھائے ان رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تعفن کی بدبو سے معاشرے کے افراد کو آگاہی فراہم کرے اور ان سے چھٹکارے کی راہ دکھائے۔

ایک اچھا اور سچا ادیب تخیل میں بھی زمینی حقائق سے بیگانہ نہیں ہو سکتا اسے ہونا بھی نہیں چاہیئے۔ جب تک ادب کسی بھی سماج کی درست عکاسی کرتا رہے گا بہتری کے مواقع موجود رہیں گے لیکن جونہی ادیب اپنے قلم کا رخ بدل کر عوام کو جھوٹ موٹ کی کسی فینٹسی ورلڈ میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے معاشرے میں بگاڑ کی پہلی اینٹ رکھ دیتا ہے۔ احمد محسود کا شمار ایسے ہی سچے اور کھرے قلمکاروں میں ہوتا ہے۔

میں نے احمد کا ناول راکھ ہوتی منزلیں پڑھا تو وزیرستان سمیت ہر اس علاقے کے لوگوں کے ہجرت کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ یہ ناول ایک ایسے شخص اور اس کے خاندان کے گرد گھومتا ہے جس نے ایک عمر گزار دی تب کہیں جا کر اسے اپنی چھت اپنا گھر نصیب ہوتا ہے اور جب اس میں رہنے کا وقت آیا اسے اسی گھر کو رات کی تاریکی میں چھوڑنا پڑا۔ یہ ناول اسی خاندان کے سروائیول کی کہانی بیان کرتا ہے۔

دہشت گردی کی لہر نے جب پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہری بھری سبز و شاداب وادیاں آگ و خون میں نہلا دی گئیں تب اس خاندان کو گھر بدر ہونا پڑا۔ در بہ در ہو کر یہ گھرانہ کن کن مشکلات سے نبرد آزما ہوتا نئے ٹھکانے پہ پہنچتا ہے۔

زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا یہ سفر ان کیلئے کیا کیا مشکلات لاتا ہے اور کتنا بھاری پڑتا ہے یہ ہے اس ناول کا موضوع اور احمد نے بجا طور پر اس کا حق ادا کر دیا۔

ہجرت۔۔ کیسا تکلیف دہ لفظ ہے۔ اپنے گھر بار اپنا وطن اپنی مٹی چھوڑ کر جانے والوں کے دل پہ کیا بیتتی ہے ہم جیسے دور پار بیٹھے لوگ کبھی جان ہی نہیں سکتے۔ ہم جنہوں نے نقل مکانی کا صرف لفظ ہی سنا ہوتا ہے کیا جانیں ہجرت، نقل مکانی کیسا بڑا دکھ ہے خاص طور پر تب جب اس کے ساتھ رضا کی بجائے جبر نتھی ہو جائے۔ یہ ناول اس احساسِ بےبسی کو ہم محسوس کرانے کی ایک ہلکی سی کوشش ہے۔

آپ میں اس اذیت اس تکلیف کا شاید تصور بھی نہیں کر سکتے جب اپنوں کی جان کی قیمت اپنی عمر بھر کی کمائی ہوئی زمینیں، گھر بار اور کاروبار سے جبراً بےدخلی کے ذریعے چکانی پڑتی ہیں۔

ہجرتِ مدینہ یاد آجاتی ہے جب اللہ کے رسول ﷺ مکہ چھوڑتے ہوئے بار بار مڑ مڑ کر اپنے وطن کو اپنے گھر بار کو دیکھتے تھے جہاں ان کا بچپن گزرا، جوانی کے ایام گزارے اور کہتے تھے مکہ مجھے تجھ سے محبت ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔

بالکل یہی احساسات ہیں اس ناول کے مرکزی کرداروں کے جنہیں ان کے اپنوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث اپنے علاقے اپنے خطے اپنی زمین سے دیس نکالا دے دیا گیا۔

اس بےبسی اس تکلیف کو محسوس کریں تو دل میں ٹیس سے اٹھتی ہے۔

کس دل سے کرتے ہوں گے لوگ اپنی ہی مٹی سے ہجرت؟

کیا گزرتی ہوگی ان کے دلوں پہ؟

کیا کیا کچھ نہیں چھوڑنا پڑتا ہوگا زمین، گھر بار، جائیداد، کاروبار کے علاوہ بھی۔۔

کتنے پیارے عزیز از جان رشتے، تعلق، احساسات و جذبات سے گندھے رشتے۔۔ جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کسی اجنبی دیار، کسی نئی زمین، نئی جگہ پہ جا کر رہنا وہاں اپنی پہچان بنانا کیا کیا قربانیاں مانگتا ہے یہ سب اس ناول میں بتایا گیا ہے۔

اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی بناوٹ نہیں ہے مصنوعی کشیدہ کاریوں سے کہانی کو رنگین بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ جو کچھ جیسا تھا ویسا ہی بیان کر دیا گیا۔

یہ اندازِ بیاں اپنی سادگی کی وجہ سے دل کو چھو لینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

احمد محسود کیلئے بہت ساری دعائیں اور نیک خواہشات۔

Check Also

Qaisar Sharif Ki Rukhsati

By Najam Wali Khan