کشمیر : کیا یہ فیصلے کی گھڑی ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک کشمیری نوجوان کہہ رہا تھا کہ میں بڑی مشکل سے سرکاری بلڈنگ کے انٹرنیٹ سے آپ کے ساتھ ویڈیو شیئر کر رہا ہوں، یہاں کسی کو کچھ علم نہیں کہ وادی میں کیا ہو رہا ہے، ہاں البتہ آج ہی 3 نوجوانوں کو بھارتی فورسز نے شہید کر دیا ہے، احتجاج تو دور کی بات ہم مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں، کیونکہ ہر پانچ قدم کے بعد ایک فوجی کھڑا ہے، اس لیے پاکستانیو! یہی وقت ہے، خدا کے لیے ہمارا ساتھ دو، ورنہ ہم اگلے 70 سال پھر غلامی میں گزار دیں گے" یہ صورتحال یقیناً ہیبت ناک ہے، اس کا اندازہ وہاں کے رہائشیوں کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن یکدم یہ صورتحال کیسے بنی؟ اس کے لیے 5 اگست کو ختم کیے جانے والے آرٹیکل 370 کی تاریخ اور اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
1947ء میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، اصول یہ طے ہوا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے پاس جائیں گے جب کہ نواب اور مہاراجے اپنی ریاستوں کے الحاق کا معاملہ عوام کی خواہش کے مطابق خود طے کریں گے۔ تین ریاستیں ایسی تھیں جو آزاد رہنا چاہتی تھیں سو ان سے یہ فیصلہ بروقت نہ ہو سکا، جونا گڑھ، حیدرآباد اور جموں کشمیر۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد ہندو اکثریتی ریاستیں تھیں جن کے حکمران مسلمان تھے جب کہ کشمیر مسلم اکثریت تھی جس کا حکمران ہندو تھا، مہا راجہ ہری سنگھ۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھارت نے اس بنیاد پر اپنا حصہ بنا لیا کہ وہ ہندو اکثریتی علاقے ہیں مگر یہ اصول جموں کشمیر پر لاگو نہیں کیا۔
مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان سے معاہدہ کر لیا۔ پاکستان سے قبائلی عوام نے کشمیر کو مہاراجہ کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے حملہ کر دیا، اس سے نمٹنے کے لیے ہری سنگھ نے کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت سے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا۔
اس کے بعد بھارت سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف شکایت لے کر چلا گیا کہ پاکستان حملہ آواروں کی پشت پناہی کر رہا ہے، سلامتی کونسل نے کشمیر کو "حملہ آوروں" سے پاک کرنے کی سفارش کی اور پاکستان اور بھارت کو علاقے میں استصواب رائے کرانے کے لیے کہا تاکہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق الحاق کا معاملہ طے ہو سکے، دونوں ممالک نے یہ سفارشات قبول کر لیں۔ جواہر لعل نہرو اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم تھے، کشمیر میں ایک آئین ساز اسمبلی وجود میں لائی گئی اور شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے۔
ہندوستانی نقطہ نظر سے اس سارے معاملے کو آئینی اور قانونی بنانے کے لیے طے کیا گیا کہ ہندوستانی سرکار کو کشمیر میں صرف مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق محدود اختیارات حاصل ہوں گے، اس غرض سے بھارتی آئین میں شق 370/35A شامل کی گئی جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تا کہ کشمیریوں کا تشخص بحال رہے اور اس مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو محفوظ رکھا جا سکے، اس مقصد کے لیے یہ قانون وضع کیا گیا کہ کوئی بھی غیر کشمیری ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکے گا اور نہ ملازمت حاصل کر سکے گا۔
یوں کشمیر کو ایک ایسی حیثیت دی گئی جو دیگر ہندوستانی صوبوں کو حاصل نہیں تھی، شق 370 کے تحت یہ انتظام اُس وقت تک کے لیے تھا جبتک کشمیر کے الحاق کا معاملہ حتمی طور پر طے نہیں پا جاتا، گویا آرٹیکل 370 نے ہندوستان اور کشمیر کے باہمی تعلق کی تشریح کر دی اور ہندوستان کو ایک عارضی قانونی جواز فراہم کر دیا جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا تھا کہ پورے ہندوستان میں ایک سرکار اور ایک آئین ہونا چاہیے، سو اس مرتبہ جب اسے بھرپور اکثریت ملی تو اس نے ایک آرٹیکل 370 کو اٹھا کر باہر پھینک دیا، بی جے پی کے حمایتیوں کے نزدیک یہ انقلابی اقدام ہے، جب کہ سیاسی مخالفین اسے ہندوستانی آئین پر شب خون مارنے کے مترادف کہہ رہے۔
لہٰذااس قانون کے خاتمے کے بعد کشمیر میں موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے، ہو گا کچھ یوں کہ فلسطین کی طرح سب سے پہلے وہاں کے رہائشیوں کی زندگی اجیرن بنائی جائے گی، پھر مسلمانوں کے گھروں کو ایک خاص مہم کے ذریعے خریدا جائے گا، اس طرح مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے گا۔ خیر ایسے حالات میں برا بھلا کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا حقیقتیں بدل جاتی ہیں؟ بی جے پی حکومت نے جو کرنا تھا، اور جو بہت دیر سے وہ کرنا چاہتی تھی، وہ کر دیا۔
بات تو ہم پہ آ جاتی ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ انھوں نے کشمیر کی تاریخ بدل ڈالی ہے۔ ہمارا جواب کیا ہونا چاہیے اورکیا ہو سکتا ہے؟ کشمیر پہ قبضہ تو اُن کا تھا اور اِس ضمن میں ہمیں ماننا چاہیے کہ بہت سی کوتاہیاں ہم سے ہوئیں۔ کام ہمیشہ کچھ کرنے سے بنتا ہے، آپ عدالتوں میں اگر کوئی کیس جیتتے ہیں تو وہ مظلومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر جیتتے ہیں، یہ آپ کو معمولی سے معمولی کسان بتا سکتاہے کہ زمین کا قبضہ جو ہاتھ سے نکل جائے وہ عدالتی کارروائیوں سے شاذ و ناظر ہی واپس آتا ہے۔
قبضہ چلا جائے تو واپس اُسی طریقے سے آتا ہے جس طریقے سے منہ زوروں کے ہاتھوں چلا گیا تھا۔ لہٰذا اگر بات معاہدوں کی جائے تو معاہدے کاغذ کے ٹکڑے ہی ہوتے ہیں۔ فی الوقت بھارت نے ہمیں امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ہم اِس کا جواب کیا دیں گے؟ ایک تو شملہ معاہدہ اب پھاڑ دینا چاہیے۔ شملہ معاہدے میں ہم نے اقرار کیا تھا کہ ہمارے معاملات دو طرفہ مذاکرات کے دائرے میں رہیں گے، یعنی ہم کسی بین الاقوامی فورم میں ان معاملات کو نہیں لے جائیں گے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ شملہ معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بے اَثر ہو گئی تھیں۔ شملہ معاہدے کے بعد سترہ سال تک ہم نے کشمیر کی کبھی بات نہ کی۔ وہ تو ایسے لگتا تھا کہ کشمیر کا ذکر ہم نے اپنے حافظے سے نکال دیا ہے۔ یہ تو کشمیریوں کی اپنی ہمت ہے کہ وہ کبھی برہان وانی کی شکل میں تو کبھی مقبول بٹ کی شکل میں اس تحریک کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو کچھ تو کرنا چاہیے۔ چلیں ! پاکستان کم از کم برابری کی سطح پر تو بات کرے، میرے خیال میں تو اب یہ فضول کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ قوم کو یا کشمیریوں کو فی الوقت یکطرفہ پیار کی ضرورت نہیں۔ پاکستان بھی اس حوالے سے کچھ کرے گا یا نہیں! حد تو یہ ہے کہ جب حال ہی میں ہم نے بھارت کی ایئر اسپیس بند کر دی تھی، تو اُس نے منتیں کر کے بحال کرا لی، جب ابھی نندن ہمارے پاس تھا تو وہ بھارت نے اگلے ہی دن ہم سے لے لیا۔
یعنی جب وہ مشکل میں ہوتا ہے تو اُلٹے پاؤں ہمارے پاس آتا ہے لیکن جب اُسے اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے تو پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ اور ہاں اس میں ہمارا اپنا بھی قصور ہے کہ ہم دنیا کے دباؤ میں بہت جلد آ جاتے ہیں، ہم نے کبھی کوئی ایسی کمیٹی یا ٹیم نہیں بنائی جو دوست ممالک میں جا کر بھارتی اوچھے ہتھکنڈوں اور کشمیریوں پر ظلم کی داستانیں بیان کرے۔ جب کہ بھارت ہمیں پوری دنیا میں گندا کرتا ہے، لہٰذا ہمیں خارجہ امور کے لیے انقلابی تبدیلیاں لانا پڑیں گے، اور معذرت کے ساتھ نام نہاد "کشمیر کمیٹی" کو تحلیل کر دیا جائے۔ فی الحال ہم اس مقدمے کے مدعی ہیں، جو کرنا ہے ہم نے کرنا ہے۔
کسی اقوام متحدہ، کسی او آئی سی، کسی ترکی کسی ملائیشیا کسی ادارے نے کچھ نہیں کرنا۔ آج ہمارا وہی فرض بنتا ہے جو کمزور ہونے کے باوجود قائداعظم نے نبھایا تھا۔ سو کیا ہم جناح کی تقلید کر پائیں گے؟ ہاں البتہ فوری طور پر پاکستان نے بھارت سے تعلقات کو جزوی طور پر ختم کرنے، تجارت منسوخ کرنے جیسے اچھے اقدام کیے ہیں مگر میرے خیال میں یہ ناکافی ہیںکیوں کہ فیصلے کی گھڑی قریب لگ رہی ہے!