جشن آزادی او ر پاکستان مسائل کے گرداب میں؟
تقابلی جائزے کی حکومتی رپورٹ اس وقت میرے سامنے پڑی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ن لیگ کی حکومت نے اپنے آخری تین سال میں 30ارب ڈالر قرضے لیے اور ہم نے پہلے تین سالوں میں "صرف" 20ارب ڈالر کے قرضے لیے!
افسوس کی بات ہے کہ ہم قرضے لے کر بھی فخر محسوس کرنے والی قوم بن چکے ہیں؟ ہاں!البتہ اس بات پر ضرور بحث ہونی چاہیے کہ اگر قرض نہ لیا جائے تو کیا کیا جائے؟ مگر افسوس اس طرف کوئی نہیں آتا۔ راقم بھی اس حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہتا تھاکہ حقیقت میں پاکستان کے ذمہ کل واجب الادا قرض ہے کتنا؟ مگر ہر فریق قرضوں کے حوالے سے اپنی الگ رپورٹ بیان کر رہا ہے اور بین الاقوامی ادارے اپنی الگ رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
اس لیے اس موضوع پر اگر جامع تحقیق کے بعد ہی اسے پیش کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مسائل کے گرداب سے کبھی باہر نکل سکے گا؟ یا کیا کبھی ان قرضوں کے چنگل سے نکل سکے گا؟ یا کیا کبھی ہمارے حالات بہتر ہو سکیں گے؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہم جب تک اپنی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے، ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہر جشن آزادی کے بعد ہماری سوچ یہی ہوتی ہے کہ پاکستان اب ترقی کرے گا، لیکن دل اُس وقت افسردہ ہو جاتا ہے جب حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔ یعنی ان حالات کو یوں کہہ لیں کہ پاکستان دلدل میں مزید دھنستا چلا جا رہا ہے۔
اس کی مثال یوں لے لیں کہ پرانے وقتوں کی سواری بیل گاڑی جب کیچڑ میں پھنس جاتی تو امیر لوگ اپنا سامان اتارکر دوسری سواری میں بیٹھ کر چلے جاتے، درمیانے درجے کے لوگ سائے میں بیٹھ کر گڈے کے نکلنے کا انتظار کرنے لگتے جب کہ غریب غرباء گڈے کو کیچڑ سے نکالنے میں لگ جاتے، یعنی پاکستان بھی ایک ایسا گڈا بن گیا ہے جو بیڈ گورننس، مس مینجمنٹ، بدنیتی، کرپشن، شخصیت پرستی کے کیچڑ میں پھنسا ہوا، مراعات یافتہ طبقہ اپنا سامان اتار کر دوسرے ملکوں میں جا رہا، بیوروکریسی، درمیانے درجے کے لوگ سائے میں بیٹھ کر گڈے کے نکلنے کا انتظار کر رہے، جب کہ عوام مسلسل گڈے کو کیچڑ سے نکالنے میں لگے ہوئے۔ بقول شاعر
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان دنیا کے اُن دس ملکوں میں شامل ہے جنھوں نے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کوشش کی ہی کیوں جاتی؟ یہاں تو قبائلی وڈیرے، جاگیردار، علماء، پیر، گدی نشین، صنعت کار، تاجر اور ریاست کے ملازم سب سیاستدان بن چکے ہیں۔
جو قدم قدم پر ڈیلیں، ڈھیلیں، قدم قدم پر بے ایمانی، دونمبری، قدم قدم پر کرپشن، لوٹ مار کر رہے ہیں اور سیاست و ریاست کو کاروبار سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ ہماری پوری سیاست چند شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے، یہ آقا ہیں، باقی غلام، جو آقا کہہ دیں غلام کے لیے حرفِ آخر۔ تو ایسے میں پاکستان مسائل کے گرداب سے کیسے نکلے؟ پھر جب 90فیصد اشرافیہ کو یہ علم ہی نہ ہو کہ انھوں نے پیسہ کمایا کیسے، ان کے پاس پیسہ آیا کیسے، مطلب کسی کے پاس منی ٹریل ہی نہ ہو، یا اُنہیں علم ہی نہ ہو کہ اُن کے اکاؤنٹ میں کون کون پیسے جمع کراتا رہا، یا اشرافیہ یہ کہہ دے کہ وہ سیاست میں مصروف تھے۔
اُنہیں علم نہیں کہ اُن کے اکاؤنٹ کروڑوں ڈالرز سے کیسے بھر گئے؟ یا یہ کہہ دیا جائے کہ جعلی اکاؤنٹس اُن کے دور حکومت میں ضرور بنے مگر اربوں کی ٹرانزیکشن کیسے ہوئیں اور کیسے لانچیں بھر بھر کر یا کیسے ایان علی جیسی ماڈلز کے ذریعے پیسہ بیرون ملک منتقل کیا گیا، یا جب ہمارے معاشی منیجرزاعدادوشمار میں جعل سازی کریں۔
اور اپنے قائدین کا پیسہ پانچ براعظموں تک پھیلانے میں مدد کریں، یا کسی بھی بڑے پراجیکٹ میں علی الاعلان کمیشن مانگی جائے تو ایسے میں پاکستان مسائل کے گرداب سے کیسے نکل سکتا ہے؟ پھر جب سابقہ حکومتیں بینکوں سے قرضے لے کر 5اعشاریہ 8فیصد گروتھ دکھاتی رہی ہوں، جب موجودہ حکومت اپنے 3سالوں میں چوتھا وزیر خزانہ لاکر بھی آئی ایم ایف کی باتیں فل اسٹاپ، کاموں تک مان رہی ہو، اور رپورٹس جاری کر رہی ہو، کہ ہاں ہم نے قرضہ ضرور لیا، لیکن اُتنا نہیں جتنا سابقہ حکومت نے لیا تھا اور قوم اس بات پر فکر مند ہونے کے بجائے فخر محسوس کر رہی ہو تو پاکستان مسائل کے قبرستان سے کیسے نکلے؟ پھر جب نظام فرسودہ، ناکارہ، بدبودار ہو چکا ہو۔
جب ملک 5فیصد کے لیے جنت اور 95فیصد کے لیے دہکتا جہنم بن چکا ہواور غریب آدمی کے لیے حالات مزید خراب کیے جا رہے ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم حالات کا مقابلہ کریں۔ اور پھر جب قرضے یوں لیے جارہے ہوں یا اس سوچ کے تحت لیے جاتے ہوں کہ ایک میٹنگ میں سابقہ دور کے ایک سابقہ وزیرخزانہ سے پوچھا جائے کہ حکومت میٹروز کے لیے لیے گئے قرضے اور خسارے کیسے پورے کرے گی تو وہ دائیں بائیں چہرہ ہلاکر بولیں "سر کچھ فیصلے سیاسی بھی ہوتے ہیں "، یا آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے بعد وکٹری کا نشان بنا دیا جائے اور کہا جائے کہ آج "فتح" کا دن ہے تو بتائیے؟ ہم مسائل کے گرداب سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ یعنی ان حالات میں ہم کیسے مسائل کے گرداب سے نکلیں؟ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ مسلم دنیا بدل چکی ہے کہ معذرت کے ساتھ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
والی باتیں پرانی ہو چکی ہیں، جذبات کے بجائے مفادات کے رشتے بن چکے، سب خلیجی ممالک بھارت کے معاشی حصہ دار بن چکے ہیں، ہم ان سے ہر سال4 ارب ڈالر کا تیل خریدتے ہیں، اس میں سے بھی آدھا اُدھار پرلیتے ہیں جب کہ بھارت 40 ارب ڈالر کا تیل خریدتا ہے، اور نقد خریدتا ہے۔ تو خلیجی ممالک پاگل ہیں کہ وہ پاکستان کے مفادات کی حفاظت کریں؟ حد تو یہ ہے کہ ہم زرعی ملک اور گندم روس سے خرید رہے، چینی برازیل سے لے رہے، کپاس بھارت سے منگوارہے، دالیں امپورٹ کررہے۔
آئل امپورٹ کررہے، سبزیوں کے بیج حتیٰ کہ ہائبرڈچاول امپورٹ کر رہے، تو ایسے میں مسائل کیسے ختم ہوں؟ ہماری جمہوریت ایسی کہ دوفیصد کو انڈے، بچے، باقی 98 فیصد کے لیے گھاس، نظام انصاف ایسا کہ95فیصدکے لیے جانوروں سے بدتر، 5فیصد کو یوں انصاف ملے کہ " جھٹ منگنی پٹ بیاہ"، غریبوں کی عورتیں جیلوں میں ناجائز بچے جن رہیں، غریبوں سے حوالاتوں میں بدفعلیاں ہو رہیں، غریب بھوک، غربت، بے روزگاری سے تنگ آکر بچوں سمیت خود کشیاں کررہے ہیں تو ایسے میں پاکستان مسائل کے گرداب سے کیسے نکلے؟ یہ حالات ہمارے ہیں، ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے سے قاصر ہیں۔
اگر ہم آج اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اُنہیں سدھارنے کی کوشش کریں گے تو یقینا حالات ہمارے لیے سازگار ہو جائیں گے اور پھر دیکھیے گا کہ ہم ایک دن مسائل کے گرداب سے بھی نکل آئیں گے ورنہ ہم یوں ہی کم قرضہ لینے پر شیخیاں بگھارتے رہیں گے!