Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Ali Ahmad Dhillon
  3. Imran Khan Kis Kis Ka Muqabla Kare!

Imran Khan Kis Kis Ka Muqabla Kare!

عمران خان کس کس کا مقابلہ کرے!

فلاں مارکیٹ بند، فلاں بازار بند، فلاں ادارے کے ملازمین کی قلم چھوڑ ہڑتال، فلاں رینک کے اساتذہ سڑکوں پر، فلاں اسپتال کے ینگ ڈاکٹروں نے روڈ بلاک کردی، فلاں کلرک ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کی کال، فلاں رکشہ یونین نے ہڑتال کردی، فلاں دھرنا شروع ہونے والا ہے، کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ شروع، فلاں جگہ جلسہ ہونا ہے اس کے اطراف کے سارے راستے بلاک کردو تاکہ اُس ایریا میں رہنے والے "پاکستانی" اپنے ہی ملک میں محصور کر دیے جائیں۔

فلاں سیاستدان بیمار، پارٹی کارکن سڑکوں پرکہ قصور حکومت کا، سڑکیں بلاک کہ حکومت کہاں ہے؟ ادھر بھارت نے کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ کردی، ادھر اپوزیشن کا بیان آگیا کہ حکومت ناکام ہوگئی، استعفیٰ دے کر گھر جائے، تاجروں سے کہا گیا کہ بہت کمائی کر لی اب اس کمائی کو تھوڑا حساب کتاب میں لے آؤ، یعنی منافع جتنا مرضی لوبس حکومت کے حساب کتاب میں ہونا چاہیے اور جو جائز ٹیکس بنتا ہے وہ دے دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج لاہور کی 50فیصد سے زائد مارکیٹیں ہڑتال پر ہیں۔ ہڑتال کا مین "پوائنٹ " ہی یہ ہے کہ بڑی خریدو فروخت کے لیے شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جائے۔ ایسے میں عمران خان کے لیے ایک نامعلوم شاعر کا شعر یاد آجاتا ہے کہ

یہ شخص کون ہے، یہ کس قدر اکیلا ہے

یہ شخص بھیڑ میں اکثر دکھائی دیتا ہے

خیر یہ تو تھے زمینی حقائق جن سے آج "عمرانی حکومت" نبردآزما ہے، جب کہ تادم تحریر مولانا صاحب کا "آزادی مارچ" لاہور کی جانب رواں دواں ہے اور جب قارئین تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو وہ لاہور میں ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہو گا یا حکومت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہو۔ الغرض ملک کے حالات اس قدر مثالی نہیں ہیں کہ سب اچھا کی رپورٹ دی جائے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے، اس کے بعد ہمیں کسی بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر ماحول گرم ہے اس لیے آج دھرنے یا آزادی مار چ پر ہی بات کرکے دل بہلا لیتے ہیں کہ آج سب ہمارا اپنا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ "اگر 126 دنوں کا وہ دھرنا دیا جا سکتا ہے، تو پھر مولانا فضل الرحمن اور اُن کی تائید کرنیوالی جماعتوں کی جانب سے دیے جانے والے مشترکہ دھرنے پر اعتراض کیوں؟"اگر اس "اعتراض " کے حوالے سے مجھ سے پوچھیں تو میرے خیال میں اُس دھرنے کے پیچھے ایک طرف، اگر قومی اسمبلی کے چار حلقوں کی اسکروٹنی تھی اور ساتھ ہی تحریک منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14 بے گناہ افراد کا بہیمانہ قتل تھا، تو سوال اٹھانے والے کیا جواب دیں گے؟الغرض 2014ء کا وہ دھرنا کسی کی ذاتی محرومی یا دوستوں کو قانون کے فیصلوں سے بچانے کے لیے نہیں، بلکہ قرضوں کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے، اس ملک کی ایک ایک پائی کو لوٹنے والوں کے خلاف تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف اور تحریک منہاج القرآن کا دھرنا کسی کو باہر بھجوانے اور احتساب کے عمل سے بچانے کے لیے نہیں تھا اور نہ ہی انتخابات میں اپنی بدترین شکست کی خفت کا بدلہ لینے کے لیے تھا، بلکہ وہ دھرنا اُس ظلم و بر بریت کے خلاف دیا گیا تھا۔

اگر مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں اور انھیں یہ پورا یقین ہے کہ اُن کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے تو علی امین گنڈا پور جنہوں نے مولانا فضل الرحمن کو اُن کے آبائی حلقے میں شکست دی ہے، اپنی کئی پریس کانفرنسوں جلسوں اور ٹی وی پروگراموں میں یہ اعلان کر چکے کہ وہ قومی اسمبلی کی اس نشست سے استعفیٰ دینے کے بعد دوبارہ الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیش کش پر مولانا فضل الرحمن کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انتخابی عمل میں شامل ہونے والی کے پی کے کی تمام سیا سی جماعتیں اس وقت ان کی پشت پر کھڑی ہیں، جن کی مدد سے انھیں کامیابی کا پورا یقین ہونا چاہیے۔ کیا یہ منا سب نہیں تھاکہ وہ دھرنے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کا یہ کھلا چیلنج قبول کر لیتے؟

بہرکیف موجودہ مارچ یا تحریک پاکستان کی تاریخ میں کوئی نئی تحریک نہیں ہے اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) چلی۔ 1988میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت شروع ہوئی۔ اس کے خلاف "اسلامی جمہوری اتحاد" (آئی جے آئی) کے نام سے 1990میں ایک تحریک شروع کی گئی۔ اس تحریک میں ایک بار پھر دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل تھیں لیکن ان جماعتوں کو صرف شہری مڈل کلاس کی حمایت حاصل تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو ایک نام نہاد تحریک کی آڑ میں برطرف کیا گیا اور متنازع انتخابات کے نتیجے میں 1990میاں نواز شریف کی حکومت بنی۔

1993میں اس حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کی قیادت میں "تحریک نجات" شروع ہوئی اور پھر میاں نواز شریف کی حکومت بھی اس تحریک کی آڑ میں برطرف کر دی گئی۔ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر محترمہ بینظیر بھٹو کی 1993میں حکومت قائم ہوئی۔ اس کے خلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی 1996احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) اس تحریک کی قیادت کر رہی تھی۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک کی قیادت جماعت اسلامی نے کی۔ اس میں بھی وسیع تر سیاسی اور عوامی شرکت نہیں تھی۔ 1996کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کی دوسری حکومت قائم ہوئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو جلا وطن ہو گئی تھیں کیونکہ ان کے خلاف نواز شریف دور کے مقدمات نے انھیں سیاسی طور پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر بھی میاں نواز شریف کے خلاف پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا لانگ مارچ ہوا لیکن 1999میں میاں نواز شریف کی برطرفی کا سبب اپوزیشن کی تحریک نہیں بلکہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ بنا۔

ان مذکورہ بالا تحریکوں کے برعکس مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک کوئی خاص ایجنڈا لے کر تو نہیں چلی لیکن وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے خاصی پرجوش نظر آرہی ہے۔ ادھر حکومت کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مخالف میڈیا اور اینکرز کو بھی ابھی تک مطمئن کرنے سے قاصر رہی ہے۔

موجودہ حکومت کے لیے یہ بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے کہ اُسے کھل کر کام بھی نہیں کر نے دیا جارہا، اگر یہی صورتحال رہی تو موجودہ حکومت 5سالوں میں کوئی ایک پراجیکٹ بھی مکمل نہیں کر پائے گی، اس لیے ملک کی خاطر تمام پارٹیوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور دھرنا نہ جانے کیوں مشکوک سا لگ رہا ہے؟ ایک بار پھر 9 ستاروں والے کھیل کا مفروضہ بھی پیش کیا جا رہا ہے، تو کچھ لوگ اسے سی پیک اورکشمیر کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اب ان خدشات یا الزامات میں کتنی سچائی ہے؟یہ تو جلد ہی سامنے آ جائے گا، جیسا کہ میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ جس طرح 1987کے ورلڈ کپ میں عمران خان کے لیے حالات سازگار نہیں تھے بالکل اسی طرح آج بھی اُن کے لیے حالات مناسب نہیں لگ رہے لیکن اُمید ہے جس طرح 1992کے ورلڈ کپ میں خان نے کم بیک کیا تھا بالکل اسی طرح آنے والے دنوں میں بھی یہی کم بیک کرے گا کیوں کہ بقول شخصے یہ پاکستان کے لیے آخری اُمید ہے۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi