کورونا: ’’مزدور‘‘ بڑھ جائیں گے؟
کورونا وبا کیا آئی دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔"سپرپاور " جنگوں کی تیاریاں کرتے رہے، کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے اور بیچتے رہے لیکن ایک مہلک وائرس نے پوری دنیا کو ایسا لپیٹ میں لیا کہ سب کے ہوش ٹھکانے آگئے، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بنگ اور دیگر مالیاتی اداروں نے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔
آئی ایم ایف جو پاکستان جیسے غریب ملکوں کو چند ارب ڈالر دینے کے لیے ناک سے لکیریں رگڑواتا تھا، کورونا وائر س کے سبب 5000ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگارہا ہے، اس سے اندازہ لگالیں کہ دنیا بھر کی معیشت کیسے ڈگمگا گئی ہے۔ دنیا کے معاشی نظام میں سبھی ممالک ایک دوسرے کی معیشت کے ساتھ جڑے ہیں۔ جیسے دنیا بھر میں اکیلا چین اپنی فیکٹریاں کھول لے اور پاکستان جیسے ممالک میں مارکیٹیں و فیکٹریاں بند ہوں تو چین کی فیکٹریاں کونسا سامان بنائیں گی۔
اسی طرح پاکستان کی فیکٹریاں کارخانے کھول بھی دیے جائیں لیکن دنیا بھر میں یا پاکستان میں کوئی خریدار نہ ہو تو فیکٹریاں کھول کر کونسے آرڈر تیارکیے جائیں گے۔ اس لیے اس تشویشناک صورتحال میں پاکستانی صنعتکار چند ایک ملازمین کی نوکریاں بچا کر باقی لیبر کو فارغ کر رہے ہیں۔ جس سے بے روز گاری میں اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی و صوبائی حکومتیں ابھی تک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز ہی نہیں آرہیں۔ اسی بحث میں وقت ضایع کیے جارہے ہیں کہ لاک ڈائون میں توسیع ہو یا نہیں۔ وفاق پورب کی طرف چل رہا ہے تو صوبے پچھم کی طرف۔ وزیر اعظم "اشرافیہ" پر الزام لگا رہے ہیں کہ کورونا امیروں کی طرف گیا تو اشرافیہ نے فوری طور پر خطرے کو بھانپ کر لاک ڈائون کا اعلان کر دیا، کسی نے غریب کا نہیں سوچا، وزیرا عظم کے اس بیان پر بھی خاصی لے دے ہو رہی ہے کہ آخر انھوں نے اشرافیہ کس کو کہا۔
جب کہ صوبے وفاق سے کورونا فنڈ کی مد میں اکٹھے ہونے والے ڈالروں میں سے حصہ مانگ رہے ہیں، الغرض ہم سب ابھی تک اسی امید پر جی رہے ہیں کہ کس کا کفن بیچ کر اپنا پیٹ بھریں۔ کوئی شرم ہوتی ہے کہ ہم گورکن کی طرح کسی میت کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اسے دفنانے کا موقع ملے اور چار پیسے ہاتھ لگ جائیں۔
خیر آج کا موضوع کچھ اور تھا، لیکن ہم جذبات میں کہیں اور جا نکلے، گزشتہ دنوں یوم مزدوراں گزرا، ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکاری سطح پر اس دن کو منایا گیا، لیکن کوئی تقریب منعقد نہ ہوسکی۔ لیکن اس دن کی مناسبت سے ایک بات اہم ضرور دیکھی گئی کہ اس بار گھروں میں بیٹھ کر بے روزگاروں نے بھی یوم مئی منایا۔ کیوں کہ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 60کروڑ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک اعداد و شمار ہیں جو آنے والے دنوں میں بڑھ کر 1ارب ہو جائیں گے۔ اور صرف پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں ابھی تک اعداو شمار تو اکٹھے نہیں کیے گئے مگر ڈیڑھ کروڑ افراد کے بے روز گار ہونے کا امکان ہے۔ ویسے بھی اس ملک کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مزدوروں کا استحصال ظلم اور ناانصافی کی کہانیاں معمول کی بات ہے، جہاں لیبر ڈے سے چند دن پہلے محنت کشوں کو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور جہاں حکومت محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم سے مزدوروں کے مسائل حل کرنے کی اپیل کرکے مطمئن ہو جاتی ہے کہ اُس نے یومِ مزدور منا لیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی سفاکی تھی جس نے انیسویں صدی میں ایک ایسے شخص کو جنم دیا جس نے اپنے انقلابی نظریات اور تحریروں سے مزدوروں کو نہ صرف زبان دی بلکہ انسانی تاریخ کا رْخ بدل کر رکھ دیا۔ اِس کا نام کارل مارکس تھا۔
مارکس نے دنیا کو کمیونسٹ پارٹی کا منشور بنا کر دیا، وہ دستاویز کارل مارکس نے اپنے دوست فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر لکھی، اِس کی ایک ایک سطر سے انقلاب کے سوتے پھوٹتے ہیں، مثلاً "مزدور صرف اُس وقت تک زندہ رہ سکتا ہے جب تک وہ کام کر سکتا ہے اور وہ صرف اُس وقت تک کام کر سکتا ہے جب تک اُس کی مزدوری سرمائے میں اضافے کا باعث بن سکے۔ یہ مزدور، انھیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کہ وہ ایک جنس کی طرح ہیں، جیسے تجارت میں استعمال ہونے والی کوئی بھی دوسری شے، اور یوں وہ سرمایہ دارانہ رقابت اور بازار کے اتار چڑھائو کے نتیجے میں برپا ہونے والے حوادث کا شکار ہو سکتے ہیں "۔
لندن میں اپنے قیام کے دوران مارکس نے داس کیپیٹل لکھی، یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں نو سال کے بچے روزانہ پندرہ گھنٹے کام کرتے تھے! داس کیپٹل لکھنے میں مارکس نے سولہ برس صرف کیے مگر حیرت انگیز طور پر یہ کتاب اُس وقت کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی، مارکس اُن لوگو ں میں سے تھا جس کی عظمت دنیا پر بعد میں آشکار ہوئی، جب وہ فوت ہوا تو اُس کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ تھے مگر اُس کی موت کے فقط ستّر برس سے بھی کم عرصے میں دنیا کی ایک تہائی آبادی نے اُس کے نظریات کے تابع ہو کر انقلابات برپا کر دیے۔ ایسی کوئی دوسری مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
میرے بس میں ہو تو ہر سال یکم مئی کو کارل مارکس کا میلا منائوں، آج لندن، ناروے بلکہ یورپ کے 90فیصد ممالک میں کارل مارکس کا بنایا ہوا نظام رائج ہے۔ لیکن دیگر ایشیائی و جنوبی امریکی ممالک میں مارکس کے نظریات نے کمیونسٹ انقلاب تو برپا کیا مگر کمیونسٹ ممالک اپنے مزدوروں کو وہ زندگی دینے میں ناکام رہے جو یورپ کی فلاحی ریاستوں نے اپنے سرمایہ دارانہ نظام میں گنجائش پیدا کرکے محنت کشوں کو مہیا کی۔
میرے خیال میں پاکستان کی کوئی بھی حکومت اگر صرف لیبر قوانین کا نفاذ یقینی بنا دے تو اِس ملک سے غربت ختم ہو جائے گی، مثلاً ملک کا ہر محنت کش سرکار کے پاس رجسٹرڈ ہو گا، ہر کارخانے دار کسی بھی محنت کش کو ملازمت دیتے وقت اسے لیبر کے محکمے کے پاس ظاہر کرے گا، پہلے تین ماہ ملازمت کچی ہو گی، اُس کے بعد محنت کش کی ملازمت پکی ہونے کی صورت میں تحریری معاہدہ ہوگا جس میں آجر کم از کم اجرت دینے کا پابند ہوگا۔ محنت کش کو بغیر وجہ اور نوٹس کے ملازمت سے برخواست نہیں کیا جا سکے گا، ہر سال تنخواہ کا بارہ سے پندرہ فیصد محنت کش کو دیا جائے گا اور ساتھ میں ایک ماہ کی چھٹیاں۔ ملازمین کا بیمہ کروایا جائے گا تاکہ بیماری یا معذوری کی صورت میں انھیں تحفظ حاصل ہو، بیمے کا پریمئم آجر اور حکومت مل کر ادا کریں گے، اِس مقصد کے لیے ایک علیحدہ کھاتہ کھلوایا جا سکتا ہے۔
یہ تمام باتیں انہونی ہیں اور نہ ہی نئی، کچھ قوانین اور محکمے پہلے سے موجود ہیں۔ صرف عمل درآمد نہیں ہو پاتا، اسی لیے محنت کشوں کا استحصال ہوتا ہے اور انھیں نوکری کا تحفظ حاصل نہیں مگر تصویر کادوسرا رُخ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہنر مند افراد کی کمی ہے، یورپ میں جو کام ایک شخص کرتا ہے اپنے ہاں وہ چار لوگ مل کر بھی نہیں کر پاتے۔ ویسے بھی اِس سرمایہ دارانہ نظام نے بہر حال مزدور کو نچوڑ کر ہی منافع نکالنا ہے، انسان تو نو برس کے بچے سے کام لے کر منافع نکال لیتا ہے، ہٹا کٹا مزدور تو پھر سونے کی کان ہے!
بہرکیف آنے والے دنوں میں کیا حالات ہوں گے کیا نہیں، یہ کسی کو علم نہیں، نہیں معلوم گذشتہ دو مہینوں کے دوران نوکریوں اور روزگار سے ہاتھ دھونے والے مزدوروں کی تعداد میں آج کتنا اضافہ ہو گا۔ اور کتنے مزدور کام کاج کھو دیں گے۔ لیکن اس مشکل وقت میں حکومت فوری طور پر اقدام کرکے مل، فیکٹری اور کارخانے کے مالکان پر نظر رکھے اور انھیں غیر قانونی اقدامات سے باز رکھے ورنہ اس چھوٹی سی کوتاہی کا خمیازہ ہم سب کو "بے روزگاری" کے پہاڑ کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ اور اگر یہ جن بوتل سے باہر آگیا تو خاکم بدہن اسٹریٹ کرائم اور لوٹ مار کا ایسا سلسلہ چل نکلے گا کہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے!!!