افغانستان سے امریکی انخلاء
امریکی فوج افغانستان سے طویل جنگ کے بعد نکل رہی ہے، امریکا اور اتحادی افواج کا ایک بڑا حصہ نکل چکا ہے جب کہ 2500کے قریب امریکی فوجی ابھی افغانستان میں موجود ہیں۔ یہ انخلاء رواں سال ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ جس کے بعد ماہرین کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان بزور قوت کابل کے اقتدار پر قابض ہوجائیں گے اور ایک بار پھر امریکا کو یہاں آنا پڑے گا۔
ان پیشگی خطرات کی وجہ سے امریکا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنا انخلا تو مکمل کرلے مگر وہ اسی خطے میں "امریکی فضائیہ" کی شکل میں موجود رہے۔ اس کے لیے اُن کی سب سے پہلی اور بہترین ترجیح پاکستان ہے۔ امریکا اس خواہش کا اظہار مختلف فورمز پر کر چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان کسی ملک کو اپنی زمین پر اڈے نہیں دے گا۔
خیر آگے چلنے سے پہلے ہم اس اہم مسئلے پر نظر دوڑاتے ہیں کہ امریکا نے ایشیاء میں کہاں کہاں اپنے پیر جمائے ہیں اور کن کن ملکوں میں وہموجود ہے۔ امریکا دنیا بھر کے 60سے زائد ممالک میں براہ راست اپنا وجود رکھتا ہے، اور اس فہرست میں ایشائی ممالک اس کے "قریب تر" ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر خلیجی ریاستوں میں امریکی موجود ہیں۔
عراق میں تعینات فوجیوں کی تعداد ساڑھے 5سے 6 ہزار اور شام میں 600 کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال مئی میں مبینہ ایرانی حملوں کے بعد پینٹاگون نے خلیج فارس میں 14 ہزار اضافی فوجی تعینات کیے۔ اگر ہم اس خطے میں موجود امریکی فوجی اثاثوں کی بات کریں توان میں پیشگی وارننگ دینے والے جہاز، سمندری نگرانی کرنے والے جہاز، پیٹریاٹ ائیر اینڈ میزائل ڈیفنس بیٹریز، بی 52 بمبار طیارے، کیرئیر اسٹرائیک گروپ، مسلح ریپر ڈرون اور انجینئرگ و دیگر اہلکار شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 2 سے ڈھائی ہزار امریکی فوجی ترکی میں بھی موجود ہیں۔
یہ تمام معلومات امریکا کے سب سے بڑے اخبار "نیویارک ٹائمز" سے لی ہیں۔ جب کہ اس کے علاوہ بھی سن لیں کہ امریکا کے جرمنی، جاپان، برطانیہ، یورپ کے بیشتر ممالک، جنوبی کوریا، ویت نام، کینیڈا، اٹلی، برازیل، کیوبا، بلغاریہ، کیمرون، بوسنیا، ناروے، سنگاپور، تھائی لینڈ، آذربائیجان سمیت درجنوں مغربی و یورپی ممالک میں بھی ہوائی اڈے موجود ہیں۔ یہ ساری معلومات دینے کا مقصد جنرل نالج میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ان سب ممالک نے جب ہوائی اڈے دے رکھے ہیں اور امریکا جب چاہتا ہے ان ممالک سے دوسرے ممالک جہا ں اُسے خطرہ محسوس ہو وہاں پر وہ کارروائی کرتا ہے۔
لہٰذا ہمیں ایسا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے جو ملکی مفاد میں بہترین ہو۔ ہمیں نہ تو افغانستان کے پیار میں پاگل ہونے کی ضرورت ہے، نہ اسلامی دنیا کے پیار میں اور نہ ہی امریکا کے پیار میں۔ مذکورہ بالا تمام ملکوں نے امریکا کو اڈے دینے اور افواج رکھنے کے عوض بڑی بڑی مراعات حاصل کر رکھی ہیں، جیسے جنوبی کوریا کی شمالی کوریا سے حفاظت امریکا کے ذمے ہے ورنہ امریکا کو شمالی کوریا سے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح کینیڈا نے امریکا کا فوجی اڈے دے کر فوج کے اخراجات سے اپنے آپ کو بری الذمہ کر دیا ہے۔
اسی طرح جرمنی نے امریکا کو ہوائی اڈے دے کر 100ارب ڈالر سے زائد کا معاہدہ کر رکھا ہے تبھی جرمنی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن چکا ہے، پھر یو اے ای اور سعودی عرب کی تمام تر سیکیورٹی کا ذمے دار امریکا ہے، جاپان نے بھی ایک بڑا تجارتی معاہدہ کر رکھا ہے اس لیے اُس کی معیشت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اسی طرح عراق پر حملہ کرنے کے لیے مصر نے امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دیے اور بدلے میں اپنا تمام تر قرضہ معاف کروایا، مزید آپ یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ قطر، بحرین، برازیل وغیرہ کو دیکھ لیں سبھی نے مفادات لے رکھے ہیں۔
الغرض دنیا کے بیسیوں ممالک نے امریکا کو اڈے دیے ہوئے ہیں اوربدلے میں مراعات وصول کر رہا ہے۔ آپ تائیوان کو دیکھ لیں، چین، تائیوان کو اپنے سے علیحدہ ہو جانے والا صوبہ سمجھتا ہے، لیکن تائیوانی باشندے اپنے آپ کو ایک علیحدہ قوم سمجھتے ہیں، اسی خطرے کے پیش نظر تائیوان نے اپنے آپ کو امریکا کے حوالے کر رکھا ہے، جس کے بعد چین کی کیا مجال کہ وہ اس چھوٹے سے ملک پر قبضہ کر لے، یعنی جو مرضی ہوجائے، جو ممالک امریکا کے ساتھ ہیں انھوں نے ساتھ ہی رہنا ہے۔
لیکن اس کے برعکس پاکستان کو نہ تو اپنا جھکاؤ معلوم ہے، نہ اپنی سمت کا تعین ہے اور نہ اپنی منزل کاپتہ ہے۔ ہم بیک وقت امریکا کے ساتھ تعلقات بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہم روسی بلاک کو بھی راضی رکھنا چاہتے ہیں اور چین کو بھی۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی حکمرانو ں نے امریکا کو ہوائی اڈے دیے لیکن سبھی نے ذاتی مفادات سے بڑھ کر کچھ نہیں مانگا۔
پاکستان سامراجی ملکوں کے شکنجے میں کیسے آیا، اس کا پتہ چلانے کے لیے مطالعے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی امریکی کیمپ میں چلا گیا تھا، امریکا نے چین سے روابط قائم کرنے کے لیے پاکستان کا سہارا لیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے خوشی خوشی امریکیوں کو اپنا کندھا پیش کر دیا۔
ایوب خان کے دورمیں پشاور کے نزدیک بڈبیرکے فضائی اڈے کی باتیں منظرعام پر آئیں جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کے فائنل راؤنڈ میں جو افغانستان میں کھیلا گیا، ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کا کھل کر ساتھ دیا۔
یہ تو تھیں پاکستان کی امریکا کے بارے میں پالیسی۔ اب ذرا افغانستان کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔ افغانستان وہ پہلا ملک تھاجس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان کو جس دہشت گرد نے گولی مار کر قتل کیا، وہ بھی افغانستان کا بھگوڑا تھا۔ افغانستان کے ہر حکمران نے ڈیورنڈ لائن کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔
یوں افغانستان پر چاہے ظاہر شاہ کی حکومت ہو یا سردار داؤد برسراقتدار آئے، ثور انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والے نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور نجیب اللہ ہوں یا پھر برہان الدین ربانی کا عبوری دور حکمرانی اور پھر طالبان کا اقتدار، سب نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پاکستان کے مفادات کے برعکس موقف اختیار کیا اور منفی کردار ادا کیا۔
اس کے باوجود پاکستان کے اقتدار کی سٹیک ہولڈر مضبوط لابی افغانستان کے بارے میں رومانویت کو پروان چڑھاتی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اسی وجہ سے پاکستان اپنی شمال مغربی سرحد محفوظ نہیں بنا سکا، اب پاکستان کے پالیسی سازوں کو افغانستان کے بارے میں یوٹوپیائی پالیسی کے سنگین نتائج سے آگاہی ہونا شروع ہوئی ہے اور شمال مغربی سرحدوں پر باڑ لگائی گئی ہے لیکن اب بھی ایک لابی اس کام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی فوجیں افغانستان سے جارہی ہیں، اس پس منظر میں پاکستان کو زمینی حقائق پر مبنی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔