افغانستان؛ پاکستان کو بے باک پالیسی اپنانی چاہیے!
اس وقت افغانستان پر لکھنا سب سے آسان… مگر مشکل ترین کام بھی ہے، آسان اس لیے کہ آج کل دنیا بھر میں یہ "ہاٹ " موضوع بنا ہوا ہے، جب کہ مشکل اس لیے کہ ابھی کسی کو علم نہیں کہ افغانستان میں آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے؟ وہاں کونسا نیا سیٹ اپ بنے گا؟ کون کون سے ممالک نئی بننے والی حکومت کو قبول کریں گے اور کون سے نہیں۔ اور پھر کئی ایک علاقے اس وقت طالبان کے قبضے میں بھی نہیں ہیں جہاں شدید لڑائیوں کی بھی پیشگوئی کی جارہی ہے۔
ان علاقوں میں سرفہرست کابل کا شمالی علاقہ "پنج شیر" ہے جہاں طالبان مخالف رہنما احمدشاہ مسعود گروپ نے طالبان سے لڑنے کے لیے 9ہزار جنگجو اور اسلحہ اکٹھا کر لیا ہے، جب کہ احمد شاہ مسعود کے دو بھائی ایک وفد کے ہمراہ آیندہ کی حکومت پر بات چیت کے لیے اسلام آبادآئے ہوئے ہیں۔ پھر تاجک النسل سابق نائب صدر امراللہ صالح جو بھارتی ہدایات پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا ہے، تاجکستان فرار ہونے کے بعد صدارت کا دعویٰ کررہا ہے اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ہمراہ پنج شیر وادی سے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کررہا ہے۔
دوسری جانب طالبان کے کچھ رہنما پاکستان میں بھی موجود ہیں، کچھ دارالحکومت کابل میں ہیں اور کچھ دوحہ میں موجود ہیں، جو مختلف اسٹیک ہولڈرز سے حکومت بنانے کے عمل پر بات چیت کررہے ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ امریکا اس تمام صورتحال میں افغانستان سے اپنے شہریوں کو بحفاظت نکالنے اور کسی مبہم پالیسی پر عمل پیرا ہے اور رہی بات قریبی ممالک چین، روس، ترکی، ایران اور پاکستان کی تو یہ سب ممالک ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ بنانا چاہتے ہیں جو اُن کے مفادات کے لیے کام کرے، اورتمام دیگر گروپوں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے کیوں کہ کہنے کو تو پاکستان اورافغانستان الگ الگ ملک ہیں لیکن وہاں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے تو اس کے پاکستان پر ایسے اثرات پڑتے ہیں جیسے ہمارے ملک کے کسی حصہ میں یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ افغانستان کے سیاسی، معاشی حالات ہوں یا امن و امان کی صورتحال، پاکستان اِن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی دیکھیے کہ جیسے ہی کابل میں امریکا کی کٹھ پتلی حکومت منہدم ہونے لگی اور طالبان کامختلف صوبوں پر قبضہ ہونا شروع ہوا تو پاکستان میں امریکی ڈالر کی مانگ میں یکدم اضافہ ہوگیا۔
تقریباً پونے چار کروڑ آبادی کا ملک افغانستان چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا ہے جسے کوئی سمندری راستہ نہیں لگتا۔ بیرونی ممالک سے بحری تجارت کی خاطر اس کا بہت زیادہ انحصار پاکستان پر ہے۔ پانچ برس پہلے پاکستان بزنس کونسل کے اندازہ کے مطابق افغانستان کی نصف سے کچھ زیادہ بیرونی تجارت پاکستان کے ذریعے ہوتی تھی۔
کابل میں اشرف غنی کی پاکستان مخالف، بھارت نواز حکومت کی وجہ سے پاکستان کی افغانستان کو برآمدات بہت کم رہ گئی تھیں۔ ان کا حجم پونے تین ارب ڈالر سے کم ہوکر اسی نوے کروڑ ڈالر پر آ گیا تھا، کیوں کہ افغانستان بھارت سمیت دیگر ممالک سے اشیاء خریدنے میں دلچسپی دکھانے لگا تھا۔ اور اب جب کہ صورتحال یکسر تبدیل ہوئی ہے تو ایک بار پھر افغانستان پاکستان سے رجوع کرے گا۔ عالمی مالیاتی فنڈز نے طالبان حکومت کی امداد روک دی ہے جب کہ امریکا نے ان کے تقریباً دس ارب ڈالر مالیت کے بینک اکاؤنٹ منجمد کردیے ہیں۔
افغانستان کی سابقہ حکومت نے اپنے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر امریکی مرکزی بینک میں رکھے ہوئے تھے۔ صدر اشرف غنی دور میں افغانستان حکومت کے بجٹ کے لیے دو تہائی فنڈز عالمی امداد (گرانٹ) سے آتے تھے۔ اگر یہ امداد بحال نہ ہوئی تو طالبان کے لیے معیشت چلانا بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ کابل کے خزانہ میں تیس چالیس کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم نہیں ہے۔
پھر یہ بھی خدشہ ہے کہ امریکا اور یورپ طالبان حکومت پر معاشی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔ اگر یہ پابندیاں لگیں تو پاکستان کی معیشت بھی سخت دباؤمیں آئے گی۔ روز گار کے لیے افغان مہاجرین پاکستان کا رُخ کریں گے، پاکستان ایک بار پھر 40سال پرانی پوزیشن پر کھڑا ہو گا، اُس وقت بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے پاکستان نے 30لاکھ افغانیوں کو چار دہائیوں تک برداشت کیا اور آج بھی صورتحال ویسی ہی ہونے جا رہی ہے۔ اور اگر آپ پاکستانی معیشت کی بات کریں تو پہلے ہی حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں پاکستان کے بانڈز کی قدر کم ہوگئی ہے اور ہم پہلے ہی ہر سال اپنے قرضوں میں کھربوں روپے کا اضافہ کر رہے ہیں۔
پاکستان افغانستان کے حوالے سے بے باک پالیسی کو اپنائے، امریکا سمیت کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنا مفاد دیکھے، پاکستان افغانستان کے لیے مثبت کردار ادا کرے جو افغانیوں کو بھی نظر آئے۔ پاکستان افغانستان میں جوائنٹ ایڈونچر کرے، جیسے معدنیات کی تلاش میں اپنی سروسز فراہم کرے۔ الغرض ہمیں ڈر کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے، بلکہ فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جائیں گے کہ ہمارا افغانستان سے کیا لینا دینا، یا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگائیں گے تو معذرت کے ساتھ ہم گھاٹے میں رہیں گے۔ اور اُس کا نقصان یقینا پاکستان کو ہی ہوگا۔
کیوں کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں کے دوران شدید دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں نے اس کی وجہ سے اپنی جانیں گنوائیں۔ دہشت گردی کی انتہا کے دنوں میں ہمیں مسلسل بتایا جارہا تھا کہ اس کے اصل ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے کئی واقعات کے منصوبہ ساز چند نمایاں پاکستانی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ طالبان کی بنائی نئی حکومت انھیں پاکستان کے سپرد کرنے کو تیار ہوگی یا نہیں۔
لہٰذاایسی صورتحال میں پاکستان کو ایک مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کو زمینی حقائق کے مطابق وزارتِ خارجہ میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی، ایسے قابل مشیر بھرتی کرنا ہوں گے جو ان تمام معاملات میں حکومت کو صحیح راہ دکھائیں۔ پاکستان، چین، روس اور ایران مل کر افغانستان کے طالبان کے سامنے سب کے وسیع تر مفاد میں کوئی قابل عمل فارمولا رکھیں تو یقیناً طالبان کے لیے انکار کرنا ممکن نہ رہے گا۔
بادی النظر میں اعلیٰ سطح کا پاکستان افغان کمیشن مقرر کیا جائے تو معاملات کو درست دھارے پرڈالا جا سکتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ملک میں طالبان کے خلاف کنفیوژن پھیلانے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان کو ان حالات میں بھی بھارت کی سازشی تھیوریوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔
اسے دونوں ایوانوں میں ایک قومی مسئلے کے طور پر سامنے رکھا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے کہ پاکستان کو طالبان کے ساتھ یا وہاں کی متوقع عبوری حکومت یا نگران سیٹ اپ کے ساتھ کس حد تک آگے چلنا ہے۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم عمران خان اپنی اندرونی سیاسی سرگرمیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر ترکی، چین کا دورہ کریں اور عالمی برادری کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔ ورنہ اگلی کئی دہائیاں ہم دوبارہ اسی دلدل میں پھنس جائیں گے اور پھر چاہ کر بھی نہیں نکل سکیں گے!