ذلت آمیز سماج مر رہا ہے
آپ اگر ملکی مسائل کے ڈھیرکے پاس جانے کی ذرا سی ہمت کرلیں تو پہلے آپ کا وہاں سے اٹھنے والی بدبو کی وجہ سے ذرا سی بھی دیر کھڑے ہونا دو بھر ہوجائے گا لیکن اگر آپ نے کھڑے ہونے کی ہمت کربھی لی تو پھر آپ اس کچرے کے ڈھیر میں دبے 22کروڑ انسانوں کی آوازیں سن کر دہل جائیں گے۔
ایسی ایسی آہ و بکا اور صدائیں آپ کوسننے کو ملیں گی جنھیں سن کر آپ کا دل پھٹ جائے گا اور پھر اس طرح سے اس سے دو ر بھاگیں گے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی آپ میں ہمت ہی باقی نہیں رہے گی۔ اب بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اس مسائل کے انبار کو جمع کرنے کے ذمے دار ہیں اور جو اگر چاہیں تو اس گند کو صاف کرسکتے ہیں اور ان میں دبے انسانوں کو اس عذاب سے نجات دلواسکتے ہیں لیکن کریں تو کریں کیا عوام کی بدنصیبی اور بدقسمتی کہ انھیں اس ڈھیر کی طرف دیکھنے تک کی زحمت بھی گوارہ نہیں۔
اگر کوئی ان کا دھیان اس طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ یہ73سالوں کا ڈھیر ہے آج کا نہیں۔ کبھی فرصت ملی تواس کی طرف بھی دیکھ لیں گے اتنی جلدی بھی کیا ہے کونسی اس کی وجہ سے قیامت آنے والی ہے چھوڑو ان کی بات کیا کرتے ہو، کوئی فائدے کی بات کرو کوئی کام کی بات کرو، موڈ بنانے کی بات کرو۔ خدارا ان کی بات کرکے موڈ مت بگاڑو نہ اپنا وقت ضایع کرو اور نہ ہمارا۔ جیتے جاگتے انسان اس ڈھیر کے بوجھ تلے آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، ایک ساتھ مررہے ہیں ایک دم مرنا بہت آسان ہو تا ہے لیکن تھوڑا تھوڑا مرنا انتہائی تکلیف دہ اور وحشت ناک ہوتا ہے جس اذیت کا شکار آج ہم ہیں پوری دنیا میں اس کی مثال ڈھونڈنا ناممکن ہے۔
میرے زمینی خداؤں تمہاری نظریں صرف اس ڈھیر اور ان میں دبے انسانوں پر ہیں ذرا دوسری طرف بھی نظریں پھیرکردیکھ لو۔ تمہارا بنایا ہوا ذلت آمیز سماج بھی مررہا ہے، وہ اس قدر غلیظ، بوڑھا، کمزورولاغر ہوچکا ہے کہ اس میں اب کوئی سکت ہی باقی نہیں رہی ہے۔ یاد رکھو سماج انسان کی مانند ہوتا ہے جس طرح انسان کو جوان، تندرست اور زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی، خوراک، خواب، امید اور خوشیوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے سماج کو زندہ اور توانا برقرار رہنے کے لیے نئی سوچ، نیا احساس، نیا خیال، خوشحالی، آزادی، مسائل سے پاک ماحول اور تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر آپ ان سب چیزوں پر سماج میں آنے پر پابندیاں لگا دیں گے۔ پہرے بٹھادیں گے تو پھر انسان اور سماج دونوں بوڑھے ہوکر مرجائیں گے کوئی جتنا بھی مصنوعی طریقوں سے انھیں زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا آخر میں اسے دونوں ہی کو دفنانا پڑے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ دنیا کی ہر چیز وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسی بدلنے ہی میں اس کی بقا ہے اگر وہ جامد ہوجائے ٹہر جائے اور منجمد ہوجائے تو وہ فنا ہوجاتی ہے۔ ازل سے اب تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
یادرکھو فطرت کا ناقابل معافی گناہ جامد پن ہے یعنی ایک جگہ ٹہر جانا۔ فطرت کا اصول ہے کہ جس چیز میں بھی ترقی و افزائش رک جاتی ہے وہ تباہ وبرباد ہو جاتی ہے Gigan Tosaurus سوفٹ سے زیادہ لمبا اور گھر جتنا بڑا ڈائنو سار تھا Tryanno Saurusمیں دخانی انجن جتنی طاقت تھی اور اسے بے حد دہشت ناک سمجھا جاتا تھا۔
Pterodactyl اڑنے والا اژدھا تھا یہ سب قبل از تاریخ دور کی بڑی عجیب الخلقت اور نہایت ظالم مخلوق تھی لیکن اب ان کا دنیا میں کہیں بھی وجود نہیں ہے، انھیں قدرت کی جانب سے منجمد کردیاگیا، انھیں نہیں معلوم کہ ان میں یہ تبدیلی کس طرح آئی وہ ساکن و جامد کھڑے تھے جب کہ زندگی ان کے ارد گرد سے خاموشی سے گذرگئی، مصر، ایران، یونان اور روم قدیم کی عظیم سلطنتیں اس وقت تباہ وبرباد ہوگئیں جب انھیں نے ترقی کرنا چھوڑ دی۔
زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے رحجانات کو بدلتے رہیں لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے رہیں جب آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو سماج منجمد ہوجاتا ہے اور سماج کے تمام اندھیرے، تمام تاریکی اور تمام غم احساسات کی شکل میں لوگوں پر طاری ہوجاتے ہیں اور لو گ منجمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی حال ہمارا ہوگیا ہے جب سے ہمارا سماج منجمد ہوا ہے اسی وقت سے لوگ بھی منجمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کے ذمے دار بھی آہستہ آہستہ مر رہے ہیں وہ جتنا اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اتنی ہی تیزی سے مریں گے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کیونکہ جو فطرت کے قانون کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے وقت کوکوئی بھی رو ک نہیں سکتا، اس نے آگے ہی بڑھنا ہے۔ انسانی تاریخ میں جس، جس نے وقت کو روکنے یا اسے قید کرنے کی کوشش کی وہ فنا ہوگیا آج ان کی باقیات یا قبروں پر وحشت ناچتی ہے۔
ہم سب ایک بہت پرانے مشرقی قصے سے واقف ہیں جس میں ایک مسافر پرکوئی خونخوار جنگلی جانور اچانک حملہ آور ہوا اس سے بچنے کے لیے مسافر ایک اندھے کنویں میں چھپ گیا لیکن اس کنویں کے اندر ایک درندہ پہلے سے موجود تھا جو اپنے جبڑے کھولے اسے نگلنے کے لیے تیارکھڑا تھا بے چارہ مسافرنہ تو کنویں سے باہر نکل سکتا تھا اور نہ اس کی تہہ میں اترنے کے قابل تھا کیونکہ دونوں جگہوں پر اس کے خون کے پیاسے وحشی جانور تھے آخرکار وہ ایک ٹہنی کوپکڑکر درمیان میں لٹک گیا لیکن جلد ہی اس کے بازو تھک گئے وہ جانتا تھا کہ آخرکار اسے خود کو موت کے حوالے کرنا ہی ہوگا جو دونوں سروں پر اس کی منتظر تھی اسی اثنا میں اس نے دو چوہے دیکھے ایک سفید اور دوسرا کالا جو بڑی سرعت سے اس شاخ کو کاٹ رہے تھے جس سے وہ لٹکا ہوا تھا اسی دوران اس نے ٹہنی کے ایک پتے پر شہد کے کچھ قطرے دیکھے اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور انھیں چاٹ لیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی کہانی بھی نہیں بلکہ اصلیت ہے اور اصلیت بھی ایسی جسے کوئی جھٹلا سکتا ہے نہ سمجھ سکتاہے اور ہمارے مسائل کے ذمے دار تو بالکل ہی نہیں سمجھ سکتے۔