ٹارزن کی واپسی
آج کل گلیوں بازاروں میں کلوز سرکٹ کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ آنے جانے والوں کی ساری فلم بن رہی ہوتی ہے، آواز ریکارڈ نہیں ہوتی۔ دیکھو تو لگتا ہے، سائلنٹ مووی چل رہی ہے۔ ایک منظر کچھ یوں تھا!
راہگیر پھلوں کی ریہڑی کے قریب آ کر رکتا ہے۔ کچھ بات کرتا ہے۔ ریہڑی والا جواب دیتا ہے۔ جس کے بعد راہگیر ایک دو لمحے کھڑا رہتا ہے، پھر آگے چل پڑتا ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟
دو تشریحیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ راہگیر پھل خریدنا چاہتا تھا۔ دام پوچھے، وہ بہت زیادہ تھے۔ راہگیر نے اپنی جیب کا کھڑے کھڑے اندازہ لگایا اور پھل خریدنے کا ارادہ ترک کر کے چلا گیا۔
دوسری یہ کہ دونوں دہشت گرد تھے۔ آجکل فون ٹیپ ہوتے ہیں اور دہشت گرد اس ریکارڈنگ کی وجہ سے پکڑ لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ دہشت گردوں کے اڈے سے ہرکارہ چلا اور پھل والے کے بھیس میں کھڑے دہشت گرد کو تازہ ہدایات دیں اور چلتا بنا۔
آپ کسی بھی تشریح کو قبول کر سکتے ہیں لیکن حال ہی میں شہباز حکومت کی جو "معرکتہ الآرا" آڈیو لیک ہوئی ہیں، ان کی دو تشریحات ممکن نہیں۔ ایک ہی تشریح ہے، وہ یہ کہ عام سی، معمول کی گفتگو ہے۔ اس کے کوئی ایسے مطلب نہیں ہیں جن کی بنیاد پر اسے سکینڈل بنانے کی کوشش کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے احباب ان پر بہت مشتعل ہیں۔ پہاڑ بنانے کے لیے رائی کا دانہ بھی ہاتھ نہیں آ رہا۔ چنانچہ بے بسی کے عالم میں ان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ لیکس ہوئی ہیں لہٰذا شہباز شریف مستعفی ہوں۔ یہ مطالبہ اپنے اندر، دراصل، بہت وزن رکھتا ہے۔ جس طرح اس مطالبے میں وزن تھا کہ چونکہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا، اس میں انہوں نے انگلی سے لب لگا کر ورق پلٹا لہٰذا انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
دو دو مطالبے آ چکے، دیکھئے شہباز شریف اس "عوامی" مطالبے کو کب پورا کرتے ہیں۔ مطالبے میں وزن تو ہے۔۔!
***
سکینڈل یہ نہیں ہے کہ آڈیو میں کیا کہا گیا، بلکہ یہ ہے کہ گفتگو کیسے ٹیپ ہو گئی، وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی کیا ہوئی۔ لیکن ظاہر ہے، یہ کوئی نیا ماجرا نہیں ہے۔ عشروں سے وزیر اعظم ہاؤس کی "الیکٹرانک جاسوسی" ہوتی رہی ہے، جوں جوں یہ ٹیکنالوجی ترقی کرتی جاتی ہے، جاسوسی کی باریکیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم تھے تو ان کی کتنی ہی "ٹیپیں" "اوپر" والوں کے پاس تھیں۔ سننے میں آیا کہ کچھ ایسے معاملات تھے کہ ان ٹیپس یا وڈیوز کو "ریلیز" نہیں کیا جا سکتا، فسق و فجور کے فروغ یا فساد خلق کا خوف تھا۔
شہباز حکومت کی آڈیوز "بے ضرر" تھیں چنانچہ بے دھڑک ریلیز کر دی گئیں۔
***
عمران خان نے یہ انکشاف کر کے سب کو بھونچکا کر دیا کہ انہیں پتہ ہے کہ مریم اور شہباز اگلی آڈیو کب لیک ہونے والی ہے اور اس میں کیا کہا گیا ہے۔
لوگوں نے سوال اٹھایا، عمران کو کیسے پتہ چلا۔ کیا ان کے "لیکس" والوں کے ساتھ رابطے ہیں؟ کیا جاسوسی یا ہیکنگ کرنے والے نیٹ ورک میں وہ خود بھی ملوث ہیں؟
توبہ توبہ، کیسے کیسے "مشرکانہ" وہم لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ ارے بھائی، عمران خان صاحب "رحونیاتی" ہستی ہیں، انہیں روحونیاتی کشف ہو گیا ہو گا۔ بے کار میں شک کر کے گناہ کمانے سے گریز کریں۔
***
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں عمران خان نے تعلیم اور ہنر پر ایک شاندار اور یادگار لیکچر دیا اور طلبہ کو زیور تعلیم اور گوہر ہنر سے آراستہ کیا۔ طلبہ کو تعلیم دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ چیف الیکشن کمشنر بے شرم آدمی ہے، اسے ذرا بھی شرم نہیں آتی ہے، یہ شریفوں کا نوکر ہے۔ آپ نے مزید تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے استعفیٰ دے دینا چاہیے ورنہ ہم لے لیں گے۔ آپ نے طلبہ کو تعلیم دی کہ حکومت والے چور ہیں اور اسحاق ڈار ڈاکو ہے۔ آپ نے طلبہ کی عملی تربیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگوائے اور "نیوٹرلز" کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ طلبہ نے تعلیم پانے کے بعد نیوٹرلز کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔ آپ نے "ہنر" پر بھی روشنی ڈالی اور طلبہ کو بتایا کہ شہباز شریف بوٹ پالشیا ہے۔ جتنا بڑا بوٹ ہو، یہ اتنی ہی زیادہ پالش کرتا ہے اور یہ چیری بلاسم ہے۔ آپ نے فرمایا جلد الیکشن کے لیے کال دینے والا ہوں، آپ سب نوجوان اس جہاد میں ساتھ دیں۔
اس تعلیمی لیکچر میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر علی اصغر زیدی نے بھی خطاب کیا اور عمران خان کی گراں قدر "تعلیمی" خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہ میرے قائد ہیں۔ بعدازاں علی اصغر زیدی نے وضاحت کی کہ یہ اجتماع غیر سیاسی اور محض تعلیمی تھا۔ اس وضاحت کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا والا لیکچر تھا یا پھر ہنرمندی کی ورکشاپ والی کلاس!
***
اسحاق ڈار صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ ان کی واپسی کو ٹارزن کی واپسی کا نام دیا جا رہا ہے لیکن ٹارزن کو اس بار روایتی بن مانس شیر یا چیتے کا سامنا نہیں ہے۔ اس بار معیشت ڈائنا ساروں کے قبضے میں ہے۔ شیر کا جبڑا چیرنا بن مانس کوپچھاڑنا اور بات ہے، ڈائنوسار پر ہاتھ ڈالنا اور بات۔ دیکھئے واپس آنے والا ٹارزن کیا کمال دکھاتا ہے۔ معیشت کی سوئی کوڑے کے ڈھیر میں نہیں، پہاڑ میں چھپی ہے۔ ایک نئے انداز کو ہکنی کا معرکہ درپیش ہے۔
5 سال پہلے اسحاق ڈار کو ایسے الزام کے تحت ملک سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا جس کی آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ الزام تھا کیا یا ہے کیا۔ دراصل جرم کچھ اور تھا۔ ریاست نے ہائبرڈ تجربہ کرنا تھا، سو کر لیا۔ سو پیاز اور دو سو جوتے وصول پا کر رجوع پر مجبور ہوئی اور ڈار صاحب کو چھیتی بوھڑیں وے طبیبا کی تان کے انداز میں واپس آنے کے لیے آمادہ کیا گیا۔ جس جہاز میں گئے تھے، اسی جہاز میں لائے گئے۔
ڈار صاحب خود نہیں گئے تھے، بھیجے گئے تھے اور ڈار صاحب خود نہیں آئے، لائے گئے ہیں۔ بس اسی تھوڑے لکھے کو بہت جانئے۔
***
ڈار صاحب کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی ڈالر انٹربینک میں پونے چھ روپے سستا ہو گیا۔ تحریک انصاف والے اس پر بہت بھنائے، پھر بھنبھنائے کہ دراصل اس میں ڈار کا کمال نہیں ہے، وہ تو ابھی راستے میں تھے، دراصل یہ بھی امریکی سازش ہے۔
یعنی ایک سائفر بھیج کر ڈالر سستا کیا گیا۔ کیا خان صاحب اس "سائفر" کی کاپی بھی کسی جلسے میں لہرائیں گے؟
***
خبر ہے کہ مہنگی بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ان کی جگہ سستی بجلی والے یونٹ لگائے جائیں گے۔
یہ مہنگے پلانٹ عمران دور میں لگائے گئے تھے۔ خیر، جو بھی ہو، مطلب یہ کہ بجلی سستی ہونے والی ہے۔ اور بہت جلد، مطلب زیادہ سے ز یادہ بیس پچیس برس تک۔
چنانچہ تب تک اپنی کل تنخواہ سے بھی زیادہ، بجلی کے بل بھرتے رہیئے۔