شاید کبھی نہیں
ایک اور بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، اشرافیہ نے عوام کو پیش کیا کرنا ہوتا ہے، عوام پرلاگوکرنا ہوتا ہے۔ پیش کرنے کا کام تو عوام کے حصے میں ہے، حکمران تو حکم چلاتے ہیں، فیصلے صادر کرتے ہیں اور عوام ان کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ عوام کا کام ہی اطاعت گزاری ہے، چاہے وہ کسی صاحب اقتدار کی ہو یا کسی صاحب اختیار کی۔
بجٹ کے بارے میں میری ہمیشہ یہ رائے ہوتی ہے کہ یہ الفاظ کا وہ گورکھ دھندہ ہے جو میرے جیسے ایک عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے، اس لیے میں اس کے اعدادو شمار میں نہیں الجھتا لیکن مجھے اس گورکھ دھندے کی گتھی بازار میں سلجھتی نظر آتی ہے جب میں کوئی چیز خریدنے بازارجاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے قیمت پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے اور دکاندار بڑی آسانی کے ساتھ یہ تاویل پیش کر دیتے ہیں کہ حکومت نے بجٹ میں فلاں ٹیکس لگا دیا ہے یا خام مال وغیرہ کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ یہ وہ رٹے رٹائے جملے ہیں جو پاکستانی قوم ہر بجٹ کے بعد سنتی آئی ہے اور سنتی رہے گی۔
اچھے وقتوں میں بجٹ کے موقع پروفاقی حکومت پاکستان بھر سے اخبار نویسوں کو اسلام آباد میں جمع کرتی تھی جن میں اکثر میرے جیسے معیشت سے نابلد اخبار نویس بھی شامل ہوجاتے تھے، حکومت کے خرچ پر اچھے ہوٹل میں رہائش اور سواری کا بندوبست ہوتا تھا، ہوٹل کی لابی میں آپس میں گپ شپ بھی لگتی تھی اور جب جی چاہتا تھا شام ڈھلتے ہی اسلام آباد میں مقیم کسی باخبر دوست کے گھر پر حاضر بھی ہوجاتے تھے جہاں پر اقتدار کے ایوانوں میں کی جانے والی سازشوں کے متعلق سرگوشیاں سننے کو ملتی تھیں۔
تین چار دن کا یہ دورہ میرے جیسے بے خبراخبار نویس کے کالموں کے لیے کافی مواد اکٹھا کرنے کا سبب بن جاتاتھا۔ مگر وہ دن ہوا ہوئے اورٹیلی ویژن کی بریکنگ نیوزنے ہماری یہ عیاشی ختم کر دی۔ پل پل کی باتصویر خبریں ہم دیکھ لیتے ہیں اور اس کے لیے اسمبلی کی گیلری میں بیٹھ کراعداد و شمار سے بھر پور تقریر سننے کی سعادت سے محروم ہوگئے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر بجٹ تقریر سنی، اس کے اہم نکات تو اسی وقت سن بھی لیے اور پڑھ بھی لیے لیکن تسلی اگلے دن کے اخبارات پڑھ کر ہی ہوئی۔ ہوتا یوں ہے کہ بجٹ تقریر کے اعدادوشمار عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں اس کا اندازہ مارکیٹ کی قیمتوں سے ہوتا ہے کہ اگلے روزسے ہی قیمتوں کا چڑھاؤ سن کر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے، اگر کسی حکومتی غلطی کی وجہ سے کوئی جنس سستی کر دی گئی ہو تو اس کے بارے میں کسی دکاندار کے پاس اپنے گاہگ کے لیے کوئی خیر خبر نہیں ہوتی۔
حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی کے بعد عوامی دباؤ پرگزشتہ دنوں پٹرول کی قیمت میں خاطر خواہ کمی کی ہے مگر اس کمی کے بعدعالم یہ ہے کہ پہلے توپٹرول نایاب ہو گیا یعنی جس پٹرول پمپ پر جائیں وہاں رکاوٹیں کھڑی ہوتی تھیں جن کا مطلب یہ تھا کہ پٹرول دستیاب نہیں ہے، یہ قدرتی بات ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا سن کر پمپ مالکان نے مطلوبہ مقدار میں ذخیرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ایک دو روز پڑول کی کمی دیکھنے میں آنی تھی مگر حیرت اس بات پر ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی ملک کے بعض شہروں میں پڑول کی قلت برقرار ہے اگر پٹرول مل رہا ہے تو محدود مقدار میں اور بعض جگہوں پر تو نایاب ہو چکا ہے۔
سمجھ نہیں آتی کہ تیل کے ڈپو سے مقرر کردہ نرخوں پر تیل کی فراہمی حکومت کا کام ہے جب کہ مارکیٹ میں فروخت ڈیلر حضرات کے ذمے ہے۔ تیل کی ضرورت سے انکار نہیں اس کی وجہ سے زندگی کا پہیہ چلتا ہے، اس کے خریدار مارکیٹ میں موجود ہیں جو ہاتھوں میں پیسے لیے ایک پٹرول پمپ سے دوسرے کے چکر لگا رہے ہیں، حکومتی ترجمانوں کے بقول تیل کا وافرذخیرہ بھی موجود ہے، پھر کیا معاملہ ہے کہ عام آدمی کو نقد رقم کے عوض بھی پٹرول دستیاب نہیں ہورہا۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کا انتظامی کنٹرول ناقص ہے اور کمزور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے خرابیاں بڑھتی جار ہی ہیں۔
کبھی آٹے کی قلت ہو جاتی ہے تو کبھی چینی کا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ ایک زرعی ملک میں اجناس کی قلت حیرت اور پریشانی کا باعث ہے، عوام حیران ہوتے ہیں کہ حکومتیں بے مثال زرعی پیداوارکے دعوے تو بہت کرتی ہیں مگر یہ وافر اجناس نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں یا شاید اسمگلر حکومت سے زیادہ بااثر ہیں جو اپنی پسند اور مرضی کے بازار میں پاکستانی اجناس کو بیچنا پسند کرتے ہیں اور پاکستانی بازاروں میں ان کی دستیابی مشکل ہو جاتی ہے۔
مجھے یہ علم نہیں کہ عوام نہ جانے کب سکھ کا سانس لیں گے۔ کب تک حکومت کی جانب سے تھوپے گئے بجٹ سہتے رہیں گے اور مشکل بنا دی گئی زندگی کو خود کشیوں کے سپرد کرتے رہیں گے۔ میں مایوس نہیں ہوتا کیونکہ مایوسی گناہ ہے مگر حالات کا دھارا ایسی سمت میں بہہ رہا ہے جس میں بہتری کی کوئی امید نظرنہیں آتی۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے پاکستان میں یہی سب کچھ چلتا رہے گا، عوام پر ظلم ہوتا رہے گا اور وہ ظلم سہتے رہیں گے نہ جانے ظلم کی یہ داستان کب ختم ہو گی، کب اور کیسے ان ظالموں سے ہماری جان چھوٹے گی جو پاکستان کے قیام کے بعد ہی ہمارا مقدر بن گئے تھے اور جنہوں نے ہر دور میں عوام پر قہر برسایا ہے، کب یہ دکھ بھری زندگی سکھ بھری زندگی میں بدلے گی۔ شاید کبھی نہیں۔