’کشمیر‘
آج کا دور مسلمانوں پر زوال اور ظلم کا دور ہے جس میں مظلوم مسلمان پچاس سے زائد مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کے باوجود تنہا غیروں کا ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہیں، کسی مسلمان ملک کے حکمرانوں میں یہ جرات نہیں کہ ان مسلمانوں کی عملی مدد کر سکیں جب کہ ان کے پاس روائتی اسلحہ کے ساتھ ایٹم بم بھی موجود ہے لیکن وہ خوفزدہ ہیں کیونکہ اقتدار کے ایوانوں کی کلید ان طاقتوں کے پاس ہے جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہیں۔
مرحوم جنرل حمید گل ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل کو آنکھیں دکھا سکتا ہے لیکن میں نے ان سے عرض کیا کہ اسرائیل تو دور کی بات ہے ہم نے توکشمیریوں کو بھی بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جب کہ ان کی آزادی ہماری پیدائشی ذمے داری ہے اور ہم نے ماضی میں اسے پورا کرنے کے لیے جنگیں بھی لڑی ہیں۔
مسلمان حکمرانوں کی اس کمزوری کو دیکھ کراور ان سے مایوس ہو کر ان مظلوم خطوں میں بسنے والوں نے ان طاقتوں کے خلاف جدوجہد کا کام خود سنبھال رکھا ہے اور اپنے ایمان اور قوت عمل سے مایوس نہیں ہوئے اور اس کی نہ ختم ہونے والی طاقت سے اپنے سے بہت برتر طاقتوں سے لڑ رہے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں سے شدید مایوسی اور اس کے نتیجے میں جو بھی ہوا دیکھا جائے گا کے عزم کے ساتھ مسلمانوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی آزادی کی ذمے خود اٹھا لی ہے۔
اگرچہ اب دنیا کا کوئی گوشہ ایک دوسرے سے دور نہیں رہا اور دنیا ایک متحدہ آبادی میں بدل گئی ہے لیکن ہم پاکستانی اپنے قریب ترین محاذ جنگ پر ہی نگاہ ڈالیں جسے کشمیر کہا جاتا ہے جہاں پر بھارت کی متعصب ہندو حکومت ریاستی دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے اور ہم ہمسائے میں بیٹھ کر اس کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور نہتے کشمیری قابض بھارتی فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
اچھے وقتوں میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرتا رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ پاکستان نے اپنی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا، اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ امریکا کے پروردہ بھارت نے امریکی دبائو کو استعمال کر کے حریت پسندوں کو دست وبے پا کیا اور پھر راتوں رات اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کنٹرول لائن پر باڑ بھی لگا لی جو بھارت کے بقول پاکستان سے گھس بیٹھیوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے روکنے کا بہانہ بنا کر لگائی گئی لیکن بھارت نے دراصل اس باڑ کے ذریعے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان باڑ کے اس پار ہے اور باڑ کے اس طرف تم اکیلے رہ گئے ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود بہادر کشمیری بھارت سے ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
آزادی کی یہ جدو جہد ایک نئی تاریخ ہے جو رقم کی جارہی ہے۔ تاریخ میں ہمیں روسی سامراج کے خلاف امام شامل جیسے مجاہد ملتے ہیں جو ایسے ہی ظالمانہ حالات میں اس بے رحم سماج کے خلاف لڑتے رہے لیکن اسلامی دنیا میں اس سامراج کو خاموشی کے ساتھ برداشت کیا جاتا رہا۔ انسان کا سب سے بڑا ڈر موت ہے اور یہی موت جب ڈر نہ رہے اور ڈر تو کیا مطلوب بن جائے تو پھر اس کا کوئی علاج کیا کرے۔ یہ موت کا ہتھیار مسلمانوں کے پاس ہے اور کشمیری مسلمان اسے بھارت کے اسلحہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
کشمیریوں نے حکمرانوں سے مایوس ہو کر یہ ہتھیار اٹھایا ہے اور معلوم یوں ہوتا ہے کہ کشمیر میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ بھارت ان کو جتنا مٹانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس میں سے ایک نئی راہ تلاش کر لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ وتمدن کے فلسفہ کے بانی ابن خلدون نے کہا تھا کہ مٹتی ہوئی قومیں اپنے ہیرو تراش لیتی ہیں اور کشمیری بھی اپنے ہیرو تراش رہے ہیں۔
ہر روز کشمیر کی ایک نئی خبر ملتی ہے لیکن ان وحشت ناک خبروں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ہم نے دنیا میں کشمیریوں کے سفیر بننے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کی سفارت کے بجائے ہم اپنی اندرونی سیاست میں الجھ گئے یا ہمیں الجھا دیا گیا تا کہ کشمیریوں کے لیے جو آواز دنیا بھر میں بلند ہو رہی تھی اس کا گلہ گھونٹ دیا جائے اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرنے والے اس میں کامیاب رہے۔
قائد اعظم ؒ نے کشمیر کے لیے شہ رگ کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا اور پاکستانیوں کو بتایا تھا کہ کشمیران کے لیے کیا ہے اور پاکستان کا ’ک، کا حرف کتنا ضروری ہے جو کشمیر سے عبارت ہے۔ لیکن ہم نے اپنے قائد کے دوسرے فرمانوں کی طرح اس فرمان کو بھی ہوا میں اڑا دیا اور سچی مگر کڑوی بات یہ ہے کہ ہم نے کشمیر یوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اورخاموشی اور لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ان کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہماری اس خاموشی کو دیکھ کر کشمیری دوست کہتے ہوں گے کہ
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا ہوا کہ مجھ کو فراموش کردیا
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے حافظ شیرازی کا شعر یاد آرہا ہے جسے امیرتیمور نے تاریخی بنا دیا تھا۔ شاعر تو معشوق کے چہرے پر سیاہ تل دیکھ کر اس قدر دیوانہ ہوا کہ ہوش و حواس گنوا بیٹھا اور اس وقت دنیا کے دو خوبصورت شہر سمر قند و بخارا اس محبوب کو تل کے عوض بخش دیے۔ جب امیر تیمور ایک فاتح بن کر شاعر کے شہر شیراز آیا تو اس نے بوڑھے شاعر کو طلب کیا، لوگ اسے سہارا دے کر دربار میں لے آئے۔
تیمور نے شاعر سے کہا کہ میں نے جن شہروں کو آراستہ کرنے اور ان کی چمک دمک پر دنیا جہاں کی میسر نعمتیں لگا دیں تم نے صرف معشوق کے چہرے کے ایک تل کے عوض ان کو بخش دیا۔ اس پر شاعر نے دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ انھی سخاوتوں اور غلط بخشیوں کی وجہ سے تو اس حال کو پہنچا ہوں۔ تیمور جو شاعروں اور عالموں کا قدردان تھا اس جواب سے خوش ہوا اور شاعر کو انعام و کرام سے نوازدیا۔ یہی حال ہمارا بھی ہے کہ ہم نے آج ہندو کو اس کے کسی حسن کے جلوے کو دیکھ کر کشمیر جنت نظیر بخش دیا ہے مگر آج نہ کوئی امیر تیمورہے اور نہ کوئی حافظ شیرازی۔ اب شعرو شاعری اور چند یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اب حافظ کا یہ فارسی شعر بھی سن لیجیے
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بچشم سمر قندو بخارا را
ان غلط بخشیوں کی سزا ہمیں کیا ملے گی اب اﷲ ہی جانے کہاں وہ زمانہ تھا کہ ہم نے دنیا کو پاکستان جیسا ایک معجزہ کر دکھایا اور کہاں یہ دن کہ ہم ایسی پستیوں کی طرف جارہے ہیں جن کا ہمیں خود کچھ علم نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ ایک بازو ہم پہلے الگ کرا چکے ہیں، کیا ہم شہ رگ کا نقصان برداشت کر پائیں گے۔