کمزور اپوزیشن
یہ درست سہی کہ وزیر اعظم عمران خان ایک خوش قسمت انسان ہیں اپنی نیم سیاسی اور اب مکمل سیاسی زندگی میں ان کی خوش قسمتی کی انتہاء نہیں مگر میں انھیں اتنا خوش نصیب نہیں سمجھتا کہ جب ان کے خلاف اپوزیشن اٹھ کھڑی ہوگی تو نہ اس کا کوئی نام ہوگا اور نہ اس کا کوئی سربراہ ہوگا ایسی گمنام اور بے پیری اپوزیشن بہت ہی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ اپوزیشن کے منتشر رہنماؤں کی خدمت میں ایک شعر عرض کرتا ہوں کہ
ہم سا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا
ابھی تک حکومت کی اپوزیشن نے عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ اگر کچھ کیا ہے تو ان کے کریڈٹ پر سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی پارٹی کی کامیابی اور تازہ ترین بجٹ اجلاس میں حکومتی کارکردگی کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنے کے بعد بجٹ کو متفقہ طور پر منظور کروانے کا سہرا عمران خان کی اپوزیشن نے اپنے سر سجایا ہے۔
اس اپوزیشن کے ہوتے ہوئے اگر وزیر اعظم کو خوش قسمت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اپوزیشن کی کوئی پارٹی بھی ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ نظر نہیں آتی مگر حکومت کو جب اپوزیشن کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اپوزیشن پہلی صفوں میں موجود ہوتی ہے۔
آپس کی نااتفاقی کہیں یا اپنے اپنے مفادات اس کی وجہ ہیں کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں ابھی تک اخباری بیان بازی کے علاوہ حکومت کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر رہی ہے اور اس وقت بھی ان کی آپس میں دوستی کا یہ حال ہے کہ وہ کسی ایک جگہ پر اکٹھا بیٹھنا بھی پسند نہیں کر رہے کجا یہ کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک برپا کرنے کا سوچ بھی سکیں۔ اپوزیشن کا اتحاد یا اشتراک کیسے ممکن ہو گا اور ان الفاظ کے معنوں میں جو باریک سا فرق ہے اس باریکی کے باوجود اپوزیشن کے کئی اصحاب اس اشتراک پر بھی تیار نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کو ملانے کے لیے اپنی مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک کہیں سے بھی سبز جھنڈی دکھائی نہیں دی لیکن وہ دھیمی رفتار سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کے خلاف اس وقت اگر کوئی جماعت متحرک ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے جو سندھ کی حکومت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور عمران خان کی حکومت کو اس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہرروز ایک بری حکومت کے طعنے دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جو تھوڑی بہت جان نظر آرہی ہے وہ بلاول کے مرہون منت ہے اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی اصل اپوزیشن نواز لیگ کی مہربانی سے بلاول اپنی آواز پاکستان کے عوام تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ نواز لیگی قیادت نے چپ کا روز رکھ لیا ہے۔ نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف لندن میں ’خود ساختہ جلا وطنی، کے دن گزار رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ ان کی سیاسی خاموشی ان کو فائدہ پہنچائے گی اس لیے وہ خود بھی چپ ہیں اور پاکستان میں ان کی سیاسی جان نشین محترمہ مریم نواز بھی زبان بندی پر سختی سے کاربند ہیں۔
دونوں باپ بیٹی اچھے دنوں کی امید سے ہیں اور بقول شخصے نواز شریف عمران خان کی حکومت کے خلاف فی الحال کسی مہم جوئی کے موڈ میں نہیں ہیں وہ ان کو مکمل وقت دینا چاہتے ہیں جیسے انھوں نے اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت کو دیا تھا اور ان کی آئینی مدت پانچ سال مکمل کرنے کے لیے ان کی مدد کی تھی جس کے بعد پیپلز پارٹی ایک بری حکومت کی صورت میں عوام کے سامنے آئی اور الیکشن میں عوام نے پیپلز پارٹی کو رد کر کے نواز لیگ کے حق میں ووٹ دیا تھا ایسی ہی کسی امید میں نواز شریف خاموش اور منتظر ہیں کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور عوامی سطح سے نئے انتخابات کا مطالبہ سامنے آئے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی قیادت کی ہدایات پراس جانب اشارہ کر چکے ہیں اور انھوں نے بھی کسی سیاسی تبدیلی کے لیے نئے انتخابات کو حل قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ نواز شریف کے برادر خورد میاں شہباز شریف جو اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کے دوست ممالک میں بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں وہ لندن سے واپسی کے بعد گوشہ نشین اور خاموش ہیں ان سے اپوزیشن کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں شاید وہ کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے سیاسی کردار کو از خودمحدود کیے ہوئے ہیں اور ان کے سیاسی کارکن جو ان سے حکومت کے خلاف بھر پورمہم کی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔
ان کی توقعات پر پانی پھر گیا ہے جس کی وجہ سے نواز لیگ کا کارکن اور ووٹر ان سے بددل ہو رہا ہے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ میاں نواز شریف کے بعد شہباز شریف سیاسی میدان میں بھر پور اور فعال کردار ادا کریں گے لیکن شہباز شریف کے علاوہ محترمہ مریم نواز کی خاموشی ان کے زخموں پر نمک چھیڑک رہی ہے جو اندرون خانہ سیاست کا کمال ہے۔ سیاسی کارکن اپنے سیاسی رہنماؤں کی مجبوریوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ لیڈر ان کی توقعات پر پورا اتریں گے لیکن جب حالات کا دھارا اس کے الٹ چل پڑے تو کارکن مایوس اور بددل ہو کر اچھے وقت کے انتظار میں گھر بیٹھ جاتے ہیں اور بسا اوقات تو اچھا وقت آنے پر بھی گھر سے نہیں نکلتے یوں وہ اپنی پارٹی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور الیکشن میں بھی اپنی پارٹی کی حمایت سے گریز کرتے ہیں۔
بہرحال فی الحال عمران خان کی حکومت کوکمزور اور بکھری ہوئی اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اپوزیشن کی جانب سے ستے خیراں ہیں البتہ اگر کوئی خطرہ درپیش ہے تو ان کی اپنی جماعت کے اندر سے ہے جس کے لیے انھیں اپنا انداز حکمرانی درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔