Science Citation Index
سائنس سائٹیشن انڈیکس
آپ کچھ عرصہ پہلے یہ ہیڈلائن ضرور سنتے ہونگے کہ چین پوری دنیا سے زیادہ ریسرچ پیپرز لکھ رہا ہے۔ مگر 2020 سے ایسے اعداد و شمار آنا بند ہو گئے ہیں۔
کیوں؟ کیونکہ اکڈیمیا میں ریسرچ آرٹیکلز کے پبلش ہونے کی مقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر کسی ایک ٹاپک پہ کی گئی ریسرچ آگے replicate نہیں ہو رہی ہے، مطلب اس کو بنیاد بنا کر نئی ریسرچ نہیں ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ آپ کے زیادہ پیپرز کا تعلق اس کام سے ہے جس پہ یا تو پہلے ہی ڈاٹا مکمل ہے یا تحقیق کہ گنجائش نہیں ہے یا وہ پریکٹیکل نہیں ہے۔
چین کے پبلش ہونیوالے ان حد سے زیادہ ریسرچ پیپرز کیساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ چینی سائنسدان تحقیق تو کرتے تھے مگر ان کی تحقیق کا امپیکٹ کم ہوتا تھا اور آگے کوئی بھی شخص ان کی تحقیق کو بنیاد بنا کر کچھ نیا نہیں پبلش کر رہا تھا۔ چین نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا کہ ہم ہر سال پوری دنیا سے زیادہ ریسرچ آرٹیکلز پبلش کر رہے ہیں مگر ہمارے ملک کے نام نئی ایجادات یا ٹیکنالوجی پھر بھی کوئی کیوں نہیں ہے؟
اس کے حل کے لئے چین نے 2018 سے اس بات کو سختی سے دیکھنا شروع کیا اور سینکڑوں بوگس ریسرچز کو ہٹوا دیا اور 2020 میں صدارتی سطح پہ ایک آرڈیننس جاری کیا۔ اس سے پہلے چائنہ 2020 تک Science Citation Index (SCI) ماڈل پہ چل رہا تھا جس میں پبلش ہونے والے پیپرز کی مقدار پیپر کی نئی ٹیکنالوجی میں حصہ بننے کی شرح سے زیادہ اہم تھی۔ یہی وہ وجہ تھی کہ ہم اکثر سنتے تھے اور ہیں کہ چین نے سب سے زیادہ پیپر پبلش کر لئے جبکہ چین innovation کے تناظر میں کافی پیچھے تھا۔
اس پیراڈاکس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ادارہ یا ملک زیادہ پیپر تو پبلش کر رہا ہے مگر اس پیپر کا اطلاق کیا ہو گا؟ اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ وہیں پہ بہت سے پروفیسرز الاؤنس کی لالچ میں زیادہ سے زیادہ ریسرچ پبلیکیشنز کے پیچھے دوڑتے تھے اور اس کے نتیجے میں ghost journals وجود میں آئے جو چند ڈالرز کے بدلے میں آپکا پورا پورا آرٹیکل خود سے لکھ کر پیدا کر سکتے ہیں۔
اس چیز کو ہم اوریجنل ریسرچ کا فقدان کہتے ہیں۔
اس مسئلے کو چینی حکومت نے سیریس لیکر سال 2020 کے بعد سے Science Citation Index (SCI) کو مکمل طور پہ کاؤنٹ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ صدر شی چن پنگ جو کہ اس بات کے حامی ہیں کہ چین میں زیادہ سے زیادہ ریسرچ ورک ہو اور اس سے ایجادات ہوں انہوں نے اس مسئلے کو بھی سیریس لیا اور اب وہاں پہ multivariate appraisal system چل رہا ہے۔
اس قدم کا نتیجہ دو سال میں ہی سامنے آ گیا اور اس سال چین امریکہ سے سائٹیشن یا پھر ریسرچ کو کسی دوسری ریسرچ میں استعمال کرنے کی شرح سے آگے آ گیا ہے اور اگلے کچھ سالوں میں مزید تبدیلی دیکھی جا سکے گی۔ اس وقت کینیڈا اور انگلینڈ بہت کم ریسرچ آرٹیکلز پبلش کرواتے ہیں لیکن ان دونوں ممالک کا ریسرچ آؤٹ پٹ یا پھر ریسرچ امپیکٹ چین اور امریکہ سے زیادہ ہے۔ وہیں چین جو کہ بیس سال پہلے 12ویں نمبر پر تھا اس سال پہلے نمبر پر موجود ہے۔
چین کے سائٹیشن انڈیکس کرائیٹیریا کو ایچ ای سی نے کاپی کر کے پاکستان میں متعارف کروایا تھا جس کی وجہ سے اب پاکستان میں وہی چین والی دوڑ چل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں خالی برتنوں کا شور بہت زیادہ ہے جو کہ جعلی طریقوں سے ریسرچ آرٹیکلز پبلش کروا کر بس نمبر بڑھا رہے ہیں مگر نتیجہ صفر ہے۔ وہیں چین کی مثال کافی اہم ہے کہ کیسے وہ ایک پالیسی اپنا کر اس کو ترک کر کے نئی پالیسی پر چلنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کو بہترین نتائج بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں۔