Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Greater Indus Plan

Greater Indus Plan

گریٹر اِنڈس پلان

بھارت نے دریائے چِناب کے پانی کو جموں و کشمیر سے بھارتی پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کی طرف موڑنے کے لیے ایک بڑے انٹر بیسن واٹر ٹرانسفر پلان پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے 113 کلومیٹر طویل نہر کی فزیبلٹی اسٹڈی جاری ہے جو چناب کو راوی بیاس ستلج سسٹم سے جوڑے گی۔

مجوزہ نہری نیٹ ورک جموں و کشمیر، پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں 13 موجودہ نہری سٹرکچرز سے جڑے گا، جو آخر کار اندرا گاندھی نہری نظام میں شامل ہوگا۔

پلان کے مطابق کشمیر سے پانی تین سالوں میں نہروں کے ذریعے راجستھان کے سری گنگا نگر تک لے جایا جائے گا۔

انڈیا کی مرکزی حکومت رنبیر نہر کی لمبائی کو 60 کلومیٹر سے 120 کلومیٹر تک دوگنا کرنے پر بھی غور کر رہی ہے اور فزیبلٹی سٹڈی کی بنیاد پر پرتاپ نہر کو بھی مکمل طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

کٹھوعہ ضلع میں اُجھ کثیر مقصدی پروجیکٹ، جو برسوں سے زیر التوا ہے، کو بھی بحال کیا جا رہا ہے۔

اوجھ کے نیچے دوسری راوی بیاس لنک، جو پہلے راوی کے اضافی پانی کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، اب اس بڑی نہر کے اقدام کا مستقل حصہ ہوگا۔ اس لنک کینال میں بیاس بیسن میں پانی کی منتقلی کے لیے ایک بیراج اور سرنگ شامل ہوگی۔ اوجھ دریائے راوی کا ایک معاون دریا ہے۔

اس دو تین سالہ منصوبے کے ساتھ ساتھ انڈیا پاکستان کا پانی روکنے کے کچھ فوری منصوبوں پر بھی کام کررہا ہے جیسے بگلیہار ڈیم اور سلال ہائیڈرو پروجیکٹس کی جھیلوں گاد کی صفائی کرکے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانا اور ساتھ ہی کئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر کام میں تیزی لانا جیسے پاکل ڈل (1,000 میگاواٹ)، رتلے (850 میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ) اور کوار (540 میگاواٹ)۔

اوپر کا مضمون ٹائمز آف انڈیا کا خبر کا ترجمہ ہے جس پر میرا ذاتی نوٹ کچھ یوں ہے۔

اگرچہ ان سب منصوبوں کے باوجود بھی انڈیا پاکستان کے حصے کا سارا پانی نہیں روک / موڑ سکتا لیکن پاکستان کے لئے دریائے چناب سے پاکستان پہنچنے والے پانی کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیوں ہمارے پاس دریائے چناب پر کوئی سٹوریج ڈیم نہیں۔ لہذا انڈیا سے پانی اگر اس وقت پاکستان نہیں پہنچتا جب فصلوں کو اس کی ضرورت ہو تو دریائے چناب سے نکلنے والی نہروں کے زیرِکاشت رقبے پر فصلوں کی کاشت بہت متاثر ہوگی۔

انڈیا اگر دریا کے قدرتی بہاؤ میں ہائیڈروپاور بناکر پانی چھوڑ دے تو پاکستان میں فصلیں متاثر نہیں ہوں گی لیکن بگلیار ڈیم بننے کے بعد اسے پہلی دفعہ بھرتے وقت انڈیا نے اس وقت ڈیم کو جان بوجھ کر اس وقت بھرنا شروع کیا تھا جب پاکستان کو اپنی فصلوں کے لیے پانی کی اشد ضرورت تھی۔

یہی کھیل اب ہر ہائیڈروپاور سٹیشن بننے کے بعد شروع ہوسکتا ہے۔ اگر یہ سارے ہائیڈروپاور سٹیشن بن جاتے ہیں تو سردیوں میں گندم کی فصل کے دوران دریائے چناب میں پانی کا بہاؤ ایک دو مہینے کے لیے غیر یقینی ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمارے کسان تیار نہیں۔

Check Also

Heart Attack Ka Khof

By Najeeb ur Rehman