Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Dastan e Ishq

Dastan e Ishq

داستانِ عشق

میرا نام وسیم قریشی ہے اور میرا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ 05 جون 1993 کو ایک ایسے خاندان میں جنم ہوا جو ریت روایات کا پابند اور رشتوں کو نبھانے میں عظیم خاندان کے نام سے جانا جاتا تھا۔

پرائمری تک پوزیشن ہولڈر تھا لیکن پھر چھٹی جماعت میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 میں قدم رکھا تو دیواریں پھلانگ کر سکول سے بھاگنے کا ہنر سیکھ لیا اور چھٹیاں کرنے کے بعد استاد صاحب کو چائے پیش کرنے سے خطرہ ٹل جاتا ہے۔ یہ ہنر میں نے اپنے بڑے بھائی صاحب سے سیکھا تھا۔

مڈل پاس کرنے کے بعد نہم جماعت میں میاں اشفاق صاحب ملے جو کہتے تھے " قریشی کرنا تو کاروبار ہی ہے تو کم از کم میٹرک تو پاس کر لے "۔ خاندانی نظام ایسا تھا کہ مڈل یا میٹرک کرو اور اپنا کاروبار کرو۔ زیادہ تعلیم بولے تو نوکری جو کہ کرنی نہیں۔

نہم جماعت میں ایک کلاس فیلو سے محبت اور پھر عشق کر بیٹھے۔ وہ کلاس کی ٹاپر تھی اور ہم تھے لاسٹ بینچر، وہ بھی انتہا کے نکمے اور نالائق۔ سونے پر سہاگہ کہ کم عمری میں ہی دولت ہمارے ہاتھ لگ چکی تھی تو بہت سے کلاس فیلوز پروٹوکول دیتے اور ہم لیڈر بنے پھرتے تھے۔۔ ایک مرتبہ مذاق ہوا کہ کل محترمہ کی سالگرہ ہے تو ہم نے جشن کا خوب اہتمام کیا اور اگلے روز بارہ پونڈ کا کیک۔ کولڈ ڈرنکس کے کریٹ اور چپس کی پیٹیاں لے کر اکیڈمی پہنچ گئے اور اس دن بہت عزت افزائی کرتے ہوئے مجھے اکیڈمی سے نکال دیا گیا اور یوں آگے پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مگر جنونی اور ضدی انسان تھا۔ ایک ڈاکٹر کے کلینک پر ملازمت شروع کر دی اور اس طرح گھر والوں نے تنگ آ کر دوبارہ پڑھنے کی اجازت دے دی۔ نہم جماعت چالیس فیصد نمبر لے کر پاس کی تو بارہ کلو گلاب جامن سارے خاندان میں تقسیم کئے گئے کیونکہ سائنس کے ساتھ نہم پاس کر کے ہم نے خاندان کا نویں جماعت پاس " پہلا لڑکا " ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دسویں جماعت میں فیصلہ کیا کہ اب برابر کی ٹکر دیں گے تو میٹرک ستر فیصد نمبر کے ساتھ پاس کر کے پھر سے خاندان کا ایک اور اعزاز مل گیا۔

اب زور ڈالا گیا کہ اپنا کاروبار کروں لیکن میں نے بغاوت کر لی اور آگے پڑھنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس دوران ڈی اے ای (آئی ٹی) میں داخلہ کروا دیا گیا جبکہ میں ایف ایس سی کرنا چاہتا تھا۔ کسی نے والد صاحب کو ڈرا دیا کہ ایف ایس سی بہت مشکل ہوتی ہے۔ چار ماہ ڈپلومے میں گزار کر بالآخر ایک دن تنگ آ گیا اور غصے میں اپنے کالج کی شرٹ پھاڑ دی اور کالج کو خیر باد کہہ دیا۔ یوں میرا ایک سال ضائع ہو گیا۔ بغاوت کا معاوضہ بھی ادا کیا اور ایف ایس سی، بی ایس سی۔ پھر ایم ایس سی کیمسٹری اور ایم فل کیمسٹری اپنے دم پر اپنے خرچے سے خود کما کر کی اور اس دوران مختلف اداروں میں پرنسپل، کوورآڈینٹر وغیرہ کے طور پر کام کیا۔۔ باقی محترمہ سے سات سال کے بعد منگنی طے پا گئی تھی اور پانچ سالہ منگنی کے بعد یعنی کل ملا کر بارہ سال بعد یہ عشق کا سفر تمام ہوا اور وہ اپنے راستے اور ہم اپنے راستے چل دیئے۔۔

مگر ہم نے آج تک اس بات پر کوئی ماتم نہیں کیا کیونکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اور غم اور بھی ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ ہم نے محبت کو طاقت بنایا اور آج تک اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے محبت ہوئی اور پھر عشق نے دنیا کو سمجھنے کا ہنر عطا کیا۔ چہرے پڑھنے کی قابلیت اور گفتگو کے انداز سے لوگوں کی شخصیت کو پرکھنے کی صلاحیت، لکھنے کا ہنر اور گہری سوچ یہ سب کچھ ہی عشق کی مرہون منت ہیں۔

سجدے بھی کئے، دعائیں بھی اور مزاروں پر حاضری بھی دی۔ عشق کی منزل کو پانے کیلئے وہ سب کیا جو ممکن تھا مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔ اس فیصلے پر خوش ہوں اور مطمئن بھی ہوں۔ ماتم کرنا مجھے پسند نہیں اور کسی کی خاطر خود کو تباہ کرنے والے سستے عاشق ہونے کا اعزاز مجھے قبول نہیں تھا۔۔

باغی اس حد تک ہوں کہ کسی سرکاری محکمے میں چلا جاوں یا کسی بھی جگہ۔ ہونے والی ناانصافی ناقابل برداشت ہوتی ہے پھر وہ کسی اور کے ساتھ ہو یا میرے ساتھ۔ ہر طرح کے موضوع پر لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنا ویڈیو پیغام بھی جاری کرتا رہتا ہوں اور انفرادی کوشش پر یقین رکھتا ہوں۔ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ سامنے والا نہیں کر رہا تو میں کیوں کروں؟ سیاستدانوں سے دور رہنا پسند کرتا ہوں اسی وجہ سے کسی کے ساتھ کوئی تصویر بنوانے کا کوئی شوق نہیں۔ دعوت نامے ملتے رہتے ہیں لیکن کبھی قبول نہیں کرتا۔

تعلیم حاصل کرنے کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑا کہ خاندان میں کوئی تعلیم یافتہ شخص رہنمائی کیلئے موجود نہیں تھا تو کہہ لیجئے کہ ہم نے دیواروں سے بھی مشورہ لیا۔ لیکن راہیں ہموار کر دیں تاکہ آگے آنے والی نسلوں کو کسی پریشانی یا محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اب آگے آنے والے خاندان کے بچے اور بچیاں ہم سے رہنمائی لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور تعلیم کا رواج خاندان میں ہماری بدولت رائج ہو چکا ہے۔

لکھنے کا شوق ہے مگر اردو ادب کے بارے کچھ خاص علم نہیں ہے۔ بس زور آزمائی کرتا رہتا ہوں اور اب تک ایک ہزار سے زائد آرٹیکل لکھ چکا ہوں۔ دو ناول بھی لکھے مگر پانچ اقساط کے بعد ادھورے چھوڑ دیئے۔ افسانے، کہانیاں، نظمیں، غزلیں سب کچھ لکھا اور ہمارے بہت بڑی تعداد میں لکھے گئے آرٹیکل بہت بڑی تعداد میں اپنا مالک بدلتے پائے جاتے ہیں۔ یعنی کہ میری طرح میرے الفاظ کو بھی آوارہ گردی کا شوق ہے۔ مطالعہ میرا جنون ہے اور چائے میرا عشق ہے۔ سگریٹ اپنی بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ فی الوقت جیون ساتھی کا کردار بھی ادا کر رہی ہے کیونکہ یہ بھی ہمیں نچوڑ ہی رہی ہے۔۔

خود کو کامیاب انسان تصور کرتا ہوں اور اس کی وجہ وہ ذہنی سکون ہے جو مجھے میسر ہے کیونکہ میری نظر میں ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔۔

اس وقت ٹرینر، موٹیویشنل سپیکر اور کاونسلر کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔ . آزاد کشمیر کے شہر عباس پور تک کا چکر تو بحیثیت سپیکر اور ٹرینر لگا آیا ہوں مگر ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari