Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Waniya Hamid
  4. Talkh Haqaiq

Talkh Haqaiq

تلخ حقائق

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "دنیا ایک دھوکا ہے"۔ پھر ہم کس گمان میں ہیں؟ ہمیں تو لوٹ کر واپس جانا ہے پھر یہ جدوجہد کس لیے؟ یہ دنیا کے پیچھے پیھچے بھاگنا کس لیے؟ کس لیے دکھاوے کی خوشی؟

ہمارے یہاں بچے کی زندگی پیدائش سے موت تک (Trending) کے مطابق کیوں ہے؟ کیا ہمیں خود سے جینا نہیں آتا، فقط لوگوں کے مطابق چلنا آتا ہے۔ آدھے سے زیادہ لوگ تو دنیا کے خوف سے آگے نہیں بڑھتے اور باقی جو رہ جاتے ہیں وہ صرف حسد، جلن یا اس دنیا کی رفتار میں بااثر لوگوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے رفتار کے دوران ایک دن مٹی تلے گہری اور نہ ختم ہونے والی نیند سوجاتے ہیں۔ یہ نیند تو سب نے ہی سونی ہے، لیکن اس نیند سے پہلے جو زندگی گزارنی ہے اسے لوگوں کے مطابق کیوں گزاریں بلکہ بامقصد ہوکر ایک متحرک زندگی جیئیں۔

یہ کس قسم کا دور ہے ہم جدت کی طرف بڑھتے ہوئے ترقی کے منازل تو طے کر رہے ہیں، لیکن اپنے ملک کی فلاح کا نہیں سوچ رہے، افسوس ہم صرف اپنے ذاتی مفادات کا سوچتے ہیں۔ ہم لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں تو وہ بھی فقط امیر ہونے کے لیے، نوکری کرنے کے لیے اور اس ملک میں نوکری نہیں ملی تو لوگ ملک ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ یہی وہ ملک ہے جہاں ہم پیدا ہوئے، جس سر زمین کا اُگا اناج کھا کر ہم بڑے ہوئے، لیکن افسوس ہم یہ سب فراموش کرکے ایک دن اپنے مفاد کے خاطر اس دیس کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

آج کا نوجوان صرف تعلیم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اُس کو کوئی اچھی نوکری مل جائے۔ اگر ہم نوجوانوں کی ہی سوچ یہی ہے تو ہمارے ملک میں نوکر ہی پیدا ہونے گے نہ کہ بادشاہ، جبکہ دیکھا جائے تو ہمارے ملک کو پڑھے لکھے سلجھے ہوئے باکردار لیڈران کی ضرورت ہے کہ پڑھے لکھے غلاموں کی۔

دکھ ہوتا ہے جب دیکھتی ہوں کہ ملک کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ نوکری مل گی تو بہتر ورنہ ملک چھوڑ دینا ہمارا شوق بن گیا ہے۔ "یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے"۔ یہ آج کے دور کا المیہ ہے یہاں ملک تو دور کی بات لوگوں اپنے قریبی رشتوں کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ہر کوئی یہ بات کرتا نظر آتا ہے کہ آج کل کا ماحول بہت خراب ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ماحول اور ملک کو خراب کرنے والا کون ہے؟ ہم ہی ہیں ہماری ہی غلام اور تنگ ذہنیت نے ملک کو پیچھے کردیا ہے۔ یہ نفسانفسی کا دور ہمیں کس رفتار سے ہماری ہی اصل سے دور لے جارہا ہے، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ اصل دوری ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور ہم ہیں کہ خوشی خوشی ان راہوں میں گامزن ہے جو ہمیں تباہی کی جانب لے جا رہی ہیں۔

ہمیں اس کا اندازہ تک نہیں ہم نیچرل ہوکر جینا بھول گئے ہیں، ہم جیتے بھی ہیں تو صرف لوگوں کو جلانے اور دکھاوے کے لیے۔ افسوس صد افسوس یہاں ہم خود کو تبدیل کرنے کا نہیں سوچتے، بس گھر بیٹھے ملک کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ہمارا ملک خراب نہیں ہے ہماری سوچ منفی ہے۔ جِسے ہمیں تبدیل کرنا ہوگا تب ہی ہمارے ملک تبدیل ہوگا۔

سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا!

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali