Maholiyati Bohran
ماحولیاتی بحران
ایٹموسفیرک کیمسٹری اور فزکس کے شعبے میں ایک حالیہ تحقیق ہوئی، اس میں ہینسن اور دیگر 18 سائنسدانوں نے اپنے اپنے نتائج پیش کیے، آپ پہلے اس تحقیق کے نتائج ملاحظہ کیجئے۔
سائنسدانوں کے مطابق "مستقبل قریب میں ہمیں ایسے تباہ کن طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو جدید دور میں آنے والے کسی بھی طرح کے طوفانوں کے مقابلے میں انتہائی شدت کے حامل ہوں گے، قطبین پر جمی برف کی تہوں کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے ٹوٹنے سے برفانی تودے گرنے شروع ہوچکے ہیں اور یہ عمل بہت تیزی سے ہو رہا ہے، منطقہ شمالی جہاں صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے اور پیشنگوئی کی جارہی ہے کہ سطح سمندر میں اس قدر اضافہ ہو جائے گا کہ دنیا کے ساحلی شہر اس صدی کے اختتام سے قبل ڈوبنا شروع ہو جائیں گے۔" تحقیق میں بتایا گیا کہ "ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کرنے لگے ہیں جو ان کی گرفت سے باہر ہے، یہ گزشتہ دس کروڑ برسوں میں آنے تیز ترین تبدیلی ہے، یہ صورتحال آج کے دور کی آب وہوا اور ایک لاکھ بیس ہزار برس قبل کی آب وہوا کے درمیان موازنہ پیش کرتی ہے جو کہ آج کے دور کے مقابلے میں اتنے ہی درجہ حرارت کی حامل تھی، اس کا نتیجہ ایک لاکھ بیس ہزار برس قبل سطح سمندر میں 20 سے 30 فٹ اضافے کی صورت میں برآمد ہوا تھا اور قطبین پر جمی بہت سی برف ٹکرے ٹکرے ہوگئی تھی اور آج بھی اسی طرح کے شدید خطرات ہمارے سر منڈلا رہے ہیں "۔
یہ کیا ہے؟ یہ ماحولیاتی بحران(گلوبل وارمنگ/کلائمیٹ چینج) کا وہ خوف ہے جس نے سائنسدانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے، دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں سہم گئی ہیں، ماحولیاتی بحران انسانی مستقبل کے لئے بہت بڑا چیلنچ بن چکا ہے، ہم شدید ترین ماحولیاتی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں، اگر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو نہ روکا گیا تو دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی، گلوبل وارمنگ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا نتیجہ ہے، جنگلات کے کٹاوں کی وجہ سے زمین کے گرد موجود حفاظتی تہہ (اوزون) میں شگاف پڑگیا ہے چناں چہ دنیا کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، چار سال قبل ہونے والے تحقیق میں ناسا نے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ 2016 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور اپریل کا مہینہ تسلسل کے ساتھ وہ ساتواں مہینہ تھا جس نے عالمی درجہ حرارت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے تاہم چند روز قبل ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ" 2020 گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں کئی گنا گرم سال تھا" آپ گزشتہ ماہ پڑنے والی گرمی سے اندازہ کرلیجئے اگر ہم نے جلد از جلد ماحولیاتی بحران پر قابو نہ پایا تو چند دہائیوں بعد ہماری زمین آگ کا کرہ بن چکی ہوگی۔
پاکستان ماحولیاتی بحران سے سب زیادہ متاثر ہونے والے پہلے دس ممالک میں شامل ہے، جیکب آباد میں موسم گرما میں درجہ حرارت 124 ڈگری فارن ہائیٹ تک چلا جاتا ہے، یہ ایشیاء کا سب سے گرم ترین شہر ہے، ورلڈ بینک نے کراچی کو گرم تین مقامات کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے، اگلے 30 سالوں میں پورے ایشیاء کے درجہ حرارت میں 3.9 ڈگری فارن ہائیٹ میں اضافہ متوقع ہے، 1947 میں پاکستان میں 33 فیصد جنگلات تھے اور آج ہمارے پاس درختوں کا احاطہ محض 4 فیصد ہے، یہ تمام جنگلات کی کٹائی کے سبب ہے، اس تباہی کا سب سے زیادہ ذمہ دار لکڑی مافیا ہے جس نے پورے ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، کلائمیٹ چینج دراصل بڑے بڑے صنعتی مافیاز اور سپر پاورز کے درمیان پیسہ کی جنگ ہے جنہوں نے منافع کی خاطر ہمارے سیارے کو آلودہ اور زہر بنادیا ہے جبکہ وہ ممالک جنہوں نے سب سے کم نقصان کیا ہے وہ اس کے سارے نتائج بھگتیں گے، پاکستان گرین ہاؤس گیس کے ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن ہمیں دنیا کی مہلک آلودگیوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا، اگر گرین ہاؤس گیسوں کے عالمی اخراج کو کم کرنے کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو عالمی بینک کے مطابق "چند سالوں میں جنوبی ایشیاء میں 800 ملین افراد کو غربت، بے گھر اور بھوک کا خطرہ لاحق ہوگا۔
انسانی وجود کو انتہائی کم وقت میں بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے، کیا ہمارے پاس اس مسئلہ کا تیز ترین اور موثر حل موجود ہے؟ برائیر پیج نے ایک انٹرویو کے دوران جب یہی سوال نوم چومسکی سے کیا تو نوم چومسکی کا کہنا تھا " آپ کے پاس بنیادی طور پر دو راستے ہیں یا تو آپ امید ترک کردیں اور مایوسی کا شکار ہوجائیں یا اس امر کا یقین کرلیں کہ صورتحال بدترین ہونے لگی ہے یا پھر آپ پرامید رہیں اور اس امید کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کریں یوں اس سے یہ اس امر کا امکان پیدا ہوجائے گا کہ بہتری ہوجائے"۔
گلوبل وارمنگ کوئی نئی چیز نہیں ہے، قریب قریب ساری تحقیقات اس امر کی نشاندہی کرتی رہی ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں 1925 سے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور صنعتی دور میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا، عشروں سے عالمی اخبارات میں سائنسدانوں کی طرف سے عالمی حدت پر شائع ہونے والی تحقیقات اس چیز کی تصدیق کرتی ہیں کہ گلوبل وارمنگ کو محض نظریہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے فضاء سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا بندوبست کرنا پڑے گا، آپ کو شاید جان کر حیرت ہو کاربن ڈائی آکسائیڈ جب ایک مرتبہ خارج ہوتی ہے تو کئی برسوں تک کرہ فضائی میں ٹھہری رہتی ہے، یہ اس طرح گل سڑ نہیں جاتی جس طرح ذرات یا سلفر ڈائی آکسائیڈ سڑ جاتی ہے جو نتیجتا سمندروں کے گرم ہونے کا صورت باعث بن رہی ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برفیں پگھل رہی ہیں جس سے جزائر پر آباد تمام اقوام غرقاب ہوجائیں گی، درخت لگانا ہی اس مسئلہ کا حل نہیں! ہمیں درخت لگانے سے بڑھ کر کچھ بڑے اقدامات کرنے ہوں گے، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی جاچکی ہے "اگر ہم زمین کے چپے چپے پر بھی درخت لگادیں تو صدی کے آخر تک ہم فقط اس قابل ہوسکیں گے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اس مقدار میں دس فیصد کمی لاسکیں گے جس میں ہم کمی لانا چاہتے ہیں " اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم درخت لگانا چھوڑ دیں مگر ہمارے پاس طویل وقت کے لئے انتظار کی گنجائش نہیں ہے، ہمیں فورا ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہیں جو طویل مدتی اقدامات کی حوصلہ افزائی کریں ۔
ہماری توانائی کی بنیاد غالب طور پر قدرتی ایندھن کے ذخائر(fossial fuels) پر رہی ہے اور ابھی تک ہے ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، موسم سے مطابقت رکھنے والے گھروں کی تعمیر کرنی ہوگی، توانائی کی بلکل ہی نئی شکلوں جیسے کرہ فضائی سے باہر شمسی توانائی سے استفادہ کرنا ہوگا(چین اس پر بہت سنجیدگی کے ساتھ کام کررہا ہے اور 2050 تک وہ مکمل طور پر سورج سے توانائی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) گوشت کی صنعتی پیداوار عالمی حدت میں خاطر خواہ حصہ ڈالتی ہے ہمیں اس حوالے سے بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا، ہمیں ٹیکنالوجی پر مبنی حل دریافت کرنے ہوں گے جیسا کہ گلوبل تھرموسٹیٹ نامی کمپنی شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے بننے والی بجلی کو استعمال کرتے ہوئے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمہ کا کام کررہئ ہے، یہ طریقہ کار اس مسئلہ سے نمٹنے کے عمل کو مزید تیز کردیتا لیکن اگر ہم سست روی کا شکار رہے تو وہ وقت دور نہیں جب سٹیفن ہاکنگ کا انسانیت کے لئے آخری پیغام حیقیقت میں بدل جائے، وہ کہتے ہیں " زمین پر ہمارا کوئی مستقبل نہیں، ہمیں اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری(زمین) میں نہیں رکھنے چاہییں، اگر ہم نے اس بحران پر قابو نہ پایا تو زمین پر بسنے والے جانداروں کی لاکھوں اقسام تباہ وبرباد ہوجائیں گی اور تباہی کا ایک ایسا دور شروع ہوگا جس کا موازنہ ساڑھے 6 کروڑ سال قبل "پانچویں فنا" سے کیا جاسکتا ہے جب زمین پر تقریبا تین چوتھائی انواع معدوم ہوکر رہ گئیں تھیں، اگر انسان نے دوسری دنیاؤں پر آباد ہونے کا انتظام نہ کیا، اگر ہم نے نئی نظام شمسی تلاش نہ کیے تو وہ وقت دور نہیں جب انسانی وجود اور انسانی تہذیب کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے اور کائنات میں انسان کا نام ونشان تک نہ رہے۔