گھر ایک جائے پناہ

گرم نرم لحاف میں قہوہ کی چسکی لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس جاڑے میں ان نعمتوں کا شکرادا کرنا ہے جو عطاہوئی ہیں، ہوٹل کے کمرے سے باہر جھانکتے ہوئے دوست نے کہا، ان لوگوں کا حال بھی پوچھیں جو سردی کی لمبی راتوں میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، آپ شہر بھر کا چکر لگائیں آپ کو سینکڑوں پکھی واسوں پر مشتمل خاندان ملیں گے، جو شدید سرد راتوں میں اپنی جھگیوں میں بچو ں کے ساتھ شب و روزبسرکرتے ہیں، اس موسم میں دھند رات کی تاریکی میں مزید اضافہ کرتی ہے، شب گذارنا کس قدر محال ہے۔
ذرا تخیل میں لائیں کہ اس سردی کی وجہ سے اگر کوئی بیمارپڑ جائے تو طبی امداد کا حصول ان کے لئے کس قدر دشوار ہے، گائنی کے مسئلہ سے دوچا رخاتون ہو تو وہ کس قدر بے بس دکھائی دے گی، آخر یہ بھی تو انسان ہیں، ان کا جرم یہ ہے کہ وہ قبائلی طرز زندگی رکھتے ہیں اور مختلف مقامات پر ہجرت کرتے ہیں، وران گفتگو دوسرے نے کہا کہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ شہروں میں یہ ہجرت اس لئے کرتے ہیں کہ انھیں آسانی سے کام مل جاتا ہے، انکی کثیر تعداد کاغذ چننے میں مصروف رہتی ہے کچھ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں، انکی خواتین بھی ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں، مگران میں سے بہت کم ایسے ہیں جو صاف ستھرے ماحول میں رہتے ہیں، عمومی طور پر جھگیوں کے اردگرد گندگی اور بدبو ہی ہوتی ہے، اسی میں ان کے بچے پلکر جوان پھربوڑھے ہو جاتے ہیں، بچے بھی وہی کام کرتے ہیں، جو ان کے بڑے کرتے تھے، نسل در نسل یہی سلسلہ چل رہا ہے۔
متضاد افواہیں بھی ان کے بارے میں گردش کرتی رہتی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے، ان میں جرائم پیشہ لوگ پناہ لیتے ہیں، یہ لوگ منشیات کا کام بھی چوری چھپے کرتے ہیں، خواتین جرائم میں انکی ہم نوا بھی ہوتی ہیں، بڑے شہروں کے علاوہ یہ دیہی علاقہ جات اور قصبات میں مقیم ہیں، وہاں یہ جانور بھی پالتے ہیں، کچھ بھیک مانگتے ہیں خانہ بدوشوں پر ہزاورں مردو خواتین ہیں جن کے پاس ریاست کے شہری ہونے کے کاغذات بھی نہیں ہے، یہ اپنا ٹھکانہ ایک نہیں رکھتے اس لئے انھیں قومی دستاویزات کے حصول میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔
شادی بیاہ کی رسومات بھی صدیوں پرانی روایات پرہیں، کہا جاتا ہے کہ داماد کو جہیز میں یہ بندر یا ریچھ دان کر دیتے ہیں، گھگھو گھوڑے بنانے کے فن سے یہ آراستہ ہیں، بندر اور ریچھ کا تماشا دکھانے کے کرتب نسل در نسل سے کرتے چلے آرہے ہیں، خواتین کا دستی پنکھے، کاغذ سے کلہاڑیاں، پرندوں کی اشکال والے آیٹیم بناکر بیچتی ہیں، بھاری بھر مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے یہ زندگی بسر کرتے ہیں، قناعت پسندی کا یہی وصف ہے کہ انکی طرف سے کبھی یہ مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا کہ انھیں بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں، ریاست کی طرف سے بھی ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی، البتہ چند این جی اوز یا مخیرحضرات موسم سرما میں یہ کاوش ضرور کرتے ہیں کہ انھیں گرم لباس، جوتے، لحاف لے کر دیئے جائیں کہ وہ سردی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔ بعض این جی اوز ان کے بچوں کو پڑھانے کے لئے سرگرم ہیں، مشاہدہ میں آیا کہ والدین کی طرف سے بچوں کو پڑھانے پر سرد مہری کا انھیں سامنا ہوتا ہے، وہ چاہتے کہ ان کے بچے صرف کمانے میں ان کے مدد گار بنیں۔
خانہ بدوش کرہ ارض پر قدیم قبائل ہیں۔ مگر آج تک قوم کا درجہ نہ پاسکے، اسی وجہ سے یہ در بدر گھومنے پر مجبور ہیں، زمین کا کوئی قطعہ بھی ان کے نام نہیں ہے، وڈیرے، جاگیر دار انھیں اپنی زمین پر پناہ دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے خدمات بھی لیتے ہیں، شہروں میں یہ مختلف مقامات پر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، انکی عارضی بستیاں عمومی طور پر کسی نجی ویران زمین یا سرکاری قطعہ اراضی پر قائم ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا ہے کہ ان خاندانوں میں بعض بچیاں نہ صرف حصول تعلیم کا شوق رکھتی ہیں، بلکہ اپنی روایات سے ہٹ کر کچھ نیا کرکے باعزت روزگار چاہتی ہیں۔
بنیادی حقوق سے اس لئے محروم رکھا جاسکتا ہے کہ یہ طبقہ مستقل ٹھکانا نہیں رکھتا، یا ان کے پاس وہ بنیادی دستاویز نہیں ہیں، جوکسی شہری کو مراعات یا حقوق کی فراہمی کے لئے ناگزیر ہیں؟ یہ تو طے ہے کہ وہ کسی دوسری ریاست میں ہجرت نہیں کر سکتے کیونکہ اس لئے بھی بنیادی دستاویزات لازم ہیں۔ پاکستان بھر میں یہ ہزاروں خاندان پر مشتمل افراد ہیں، اگر انھوں نے یہیں قیام اور سکونت اختیار کرنی ہے، تو سرکاری ادارہ جات ان کے کوائف جمع کریں، اس کی روشنی میں ان کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کریں، ان کے متعلق جن خرافات کا تذکرہ عوامی سطح پر کیا جاتا، سماجی برائیوں کے خاتمہ کے لئے ان کی مانیٹرنگ بھی ناگزیر ہے۔
کسٹم کئیر سوسائٹی نے صوبہ سندھ میں "جھونپڑی سے گھر تک" پراجیکٹ کے تحت خانہ بدوشوں کو گھر بنا کر دیئے ہیں، بہت سے سرکاری محکمہ جات ایسے ہیں جن کی زمینوں پر بااثر حضرات قابض ہیں، سرکار این جی اوز کی مدد سے انھیں سر چھپانے کے لئے آسان شرائط پر مکان بنا کر دینا چایئے تو کوئی امر انکی راہ میں حائل نہیں ہوگا، ان خانہ بدوشوں میں بہت سے خاندان ایسے بھی ہوں گے جو جوان بچیوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے شب گذارتے ہیں، کیا ارباب اختیار ان کا کرب محسوس کر سکتے ہیں؟
خانہ بدوشوں کے یہ خاندان واجبی سے مسلمان بھی ہیں، بنیادی عقائد سے متعلق آگاہی دینا ان پر لازم ہے جو مذہبی جماعتیں تبلیغ کو فرض عین سمجھتی ہیں، انکی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انھیں کوئی موسم بھی راس نہیں آتا، اسکی حدت اور شدت میں انھیں پورے خاندان کے ساتھ بے بسی ہی میں شب بسر کرنا پڑتی ہے، بارش میں انکی لاچارگی دیکھی نہیں جاتی۔
گرم کمرے اور نرم لحاف میں محو گفتگو دوستوں نے کہا کہ انسان کتنا خود غرض ہے کہ پیسے کے بل بوتے پر اپنی پسند کا موسم خرید لیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے قدرتی وسائل فراہم کرتے ہوئے کسی رنگ، نسل، علاقہ، ذات کی تخصیص نہیں کی، اس کے برعکس حکمرانوں نے لوگوں کو خانوں میں بانٹ کر انسانیت اور اس خون کی توہین کی ہے، جس کا رنگ ایک جیسا ہے۔ جھونپٹری میں پیدا ہونے والا ابراہیم لنکن غیر مسلم معاشرہ میں امریکی صدر بن سکتا ہے، تو جھونپڑیوں میں جنم لینے والوں کے لئے گھرجائے پناہ کیوں نہیں بن سکتا۔ مخیرحضرات اور عالمی امدادسے ایسا کرنا کسی ریاست کے لئے ناممکن نہیں ہے۔

