Hamsaye Ki Biwi
ہمسائے کی بیوی
زمانہ قدیم میں اہلِ عرب جب کوئی بستی بساتے تو وہاں ایک طرز اور ایک ہی شکل کے کچے مکان بناتے، مٹی سے بنے گھروں کے اوپر کھجور کے پتوں سے بنی چھت جس کے نیچے ستون کے لیے بھی کھجور کے درخت کا تنا استعمال کیا جاتا، اسی طرح دروازے اور روشن دان بھی ایک جیسے ہوتے تھے جن کے لیے صحرائی جھاڑیوں سے الگ کی گئی شاخوں کے اوپر کجھور کے پتوں سے چادر بنا کر لگائی جاتی تھی یوں وہ ایک پردہ نما دروازے کا کام دیتا تھا، ہر گھر کے صحن میں ایک دو کجھور کے درخت ہوتے تھے تو یوں ایک جیسے دکھائی دینے والے گھروں میں بعض اوقات لوگ غلطی سے دوسروں کے گھروں میں بھی داخل ہوجاتے تھے۔
ایک دفعہ ایسی ہی بستی میں رہنے والے ایک کسان نے ایک صبح کھیتوں میں جانے سے پہلے اپنی بیوی سے کہا کہ آج شام دوسرے قبیلے کے سردار میرے ہاں مہمان ہیں تو ان کی مہمان نوازی کے لیے کھجور کا حلوہ، گندم کا ہریس، اور زیتون کے تیل میں بکری کی ران بھون کر تیار رکھنا، وہ بازار سے تمام ضروری اشیاء لے کر بیوی کے حوالے کر کے اپنی بکریاں وغیرہ لے کر کھیتوں کی جانب چلا گیا، کھجور کے پکنے کا موسم تھا، حبس اور بلا کی گرمی میں جب پیڑوں کا سایہ بھی مسافر کو راحت نہیں دیتا تھا تو وہ کسان دوپہر کے وقت کھیتوں سے واپس گھر کی جانب چل دیا، باڑے میں بکریاں باندھ کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی تو منہ لپیٹ کر چٹائی پر بے خبر سو رہی ہے۔
اور گھر میں کسی بھی قسم کے کھانے کی خوشبو بھی نہیں آرہی تو گرمی سے بے حال اس شخص کا غصہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا، فوراً لاٹھی اٹھائی اور پوری قوت سے بیوی کی کمر میں دے ماری اور ساتھ غصے میں ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا اگر شام تک کھانا تیار نہ ہوا تو تمھارے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے، یوں غصے میں برا بھلا کہتا وہ کمرے سے باہر نکل کر پانی پینے کی غرض سے باورچی خانے میں گیا تو اس کو احساس ہوا کہ وہ تو غلطی سے اپنے پڑوسی کے گھر میں آگیا ہے اور اوپر سے اس نے پڑوسی کی بیوی کو پیٹ بھی ڈالا تھا، پریشانی اور گھبراہٹ میں فوراً وہاں سے بھاگا اور اپنے گھر میں گیا۔
تو دیکھا ہر چیز بہترین طریقے سے تیار اور رقابیوں میں سجی ہوئی ہے، شام کو جیسے تیسے کرکے اس نے سردار کی دعوت کی اور اس کو رخصت کرنے کے بعد وہ اپنے پڑوسی کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اپنی بیوی کی شکایت پر ابھی آئے گا اور جھگڑا کرے گا ہوسکتا ہے جرگہ بھی ہو اور مجھے سزا بھی ملے، خیر پڑوسی تو نہ آیا لیکن وہ اگلے چند روز ڈر کر جب بھی اپنے پڑوسی کو دیکھتا کنی کترا کر راہ بدل لیتا، یوں ایک ہفتہ گزر گیا پڑوسی تو نہ آیا لیکن وہ ضمیر کے ہاتھوں پشیمان ہوکر ایک دن اسی پڑوسی کے گھر چلا گیا اور باہر کھڑے ہوکر اس کو آواز دی وہ باہر آیا بڑے تپاک سے ملا تو اس نے حوصلہ پاکر آہستہ آواز میں اسے ساری بات بتائی معافی مانگی، کہا میں تمھاری بیوی سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔
اور ہر طرح کی سزا کے لیے تیار ہوں، تو اس کی بات سن کر اس کا پڑوسی ہنسنے لگا اور کہنے لگا "خدا کے بیوقوف بندے کیوں ایک غلطی کے اوپر دوسری غلطی کرنے پر تلے ہوئے ہو، میں تو پچھلے چند دنوں سے پریشان تھا کہ ایسی کون سی نیکی میں نے کی ہے جس کی وجہ سے میری بیوی یکدم بدل گئی ہے، مجھے تو اس قصے کا پتا ہی نہیں تھا اور میری بیوی بھی شاید سمجھ رہی ہے کہ وہ میں ہی تھا کیونکہ جیسے ہی میں گھر پہنچتا ہوں وہ میرے جوتے اتروا کر میرے پاؤں دھوتی ہے، پھر میرے ہاتھ دھلوا کر دستر خواں پر بٹھاتی ہے اور ہر روز لذیذ پکوان کھانے میں دیتی ہے، میری ٹانگیں دباتی ہے میرے سونے کے بعد سوتی ہے اور جاگنے سے پہلے جاگ کر قہوہ پیش کرتی ہے اور تم ہو کہ یہ سارا بھرم توڑنے پر دوڑے چلے آئے ہو، سنو یہ کچھ دینار میری طرف سے رکھ لو اور ایسا کرو مہینے میں ایک آدھ بار ایسی غلطی کرنے آجایا کرو۔