Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Wajood e Zan Se Hai Tasveer e Kainat Mein Rang

Wajood e Zan Se Hai Tasveer e Kainat Mein Rang

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

ہمارا اور آپ کا خمیر جس تربیتی مٹی سے گوندھا گیا ہے اس کا تو پہلا سبق ہی یہی ہے کہ عورت پیروں کی جوتی ہے۔ عورت کو زیادہ سر پر مت چڑھاؤ۔ زن مرید مت بنو۔ عورت کم عقل ہے کبھی مشورہ نہ لینا۔ عورت کی حفاظت کرو۔ والدین ہو تو سسرال میں رہنے کا سلیقہ قرینہ سکھاؤ، بھائی ہو تو اس کی روزمرہ زندگی پر نگاہ رکھو۔ شوہر ہو تو چادر اور دیواری کی اہمیت جتاتے رہو۔

ویسے بھی لڑکیوں کا زیادہ لکھنا پڑھنا ٹھیک نہیں، ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔ بس بالغ ہوتے ہی شادی کر دو ورنہ آپ تو جانتے ہیں کہ جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ ان عورتوں کا رونا بسورنا تو قابلِ برداشت ہے مگر ہنسنا تو دور کی بات، مسکرانا بھی ناقابلِ معافی ہے۔ حتیٰ کہ ماں بھی قہقہہ لگائے تو پیٹ سے نکلا ٹوک دے کہ اماں کیا کر رہی ہو، لوگ کیا سوچیں گے؟ کیا کہا برادری سے باہر کا رشتہ آرہا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کر دیں گے۔ او ٹھیک ہے اسلام میں تاکید ہو گی کہ لڑکی کی مرضی معلوم کرو۔ لیکن اسے دین دنیا کی الف، ب کا کیا پتہ۔ یہ کیسے اپنے فیصلے خود کرسکتی ہے؟ اسلام نے تو اور بھی بہت کچھ تاکید کی ہے۔ کیا اس پر عمل ہوتا ہے؟ بس ہم نے جہاں شادی طے کر دی وہیں پر ہو گی۔ ہچر مچر کی تو مار کے اسی صحن میں گاڑ ڈالیں گے۔ بیٹی آخر ہم تیرا برا کیوں چاہنے لگے بھلا؟

آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اسی فیصد لطیفے اور سو فیصد گالیاں عورت کے گرد گھومتی ہیں۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو ڈائین۔ کیا سارا سماج بچپن سے بڑھاپے تک اسی گھٹی پر نہیں پلتا؟ اور پھر یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدل جاتا ہے۔ اچھا تو اس پاک سر زمین میں اب تک کتنے غیرتی قاتل پھانسی پر لٹک چکے؟ کتنا آسان ہے یہاں عورت کو مار ڈالنا۔

اگر خود لہو کے اڑتے چھینٹے نہیں دیکھ سکتے تو کسی نامحرم سے اپنی ہی بہو، بیٹی، بہن یا ماں کو قتل کروا دیتے ہیں اور پھر قانونِ قصاص کو دیدہ دلیری سے موم کی ناک بنا کر مقتولہ کے وارث کی حیثیت سے قاتل کو معاف کر دیتے ہیں۔ خود بھی بچ گئے، خاندان کی ناک بھی اور ترکے کا حصہ بھی۔ آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں۔ یہ لاشیں تھوڑا ہی ہیں۔ بے غیرتی کی بھٹی میں ڈالی جانے والی ماتمی لکڑیاں ہیں تاکہ غیرت کا ابلتا کڑھاؤ خدانخواستہ ٹھنڈا نہ پڑ جائے۔ ورنہ پلے کیا رہ جائے گا؟

ہمارے پاس تو لباسِ جہالت کے سوا اور کوئی جوڑا بھی نہیں۔ وہ پولیس والا بھی ہمارے ہی گھر اور گلی محلے کی تربیتی پیداوار ہے جو اکثر تفتیش سے پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ دراصل جو عورت شکایت لے کر تھانے آئی ہے اس کا کردار ہی مشکوک ہے۔ اس کا حصولِ انصاف کے لیے کسی مرد کا وسیلہ حاصل کرنے کے بجائے خود چل کر آنا ہی اس کی بے شرمی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ " شریف عورتوں " کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔

یہ نفسیات اور طرزِ عمل اعلیٰ ترین عہدے داروں سے لے کر مجھ تک سب کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ کسی ٹھیلے والے کے نہیں بلکہ ایک صدرِ مملکت کے الفاظ ہیں کہ "چند خواتین مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں"۔ یہ کسی راہ چلتے لا ابالی لونڈے کے نہیں بلکہ ایک منتخب وزیراعظم کے الفاظ تھے کہ "خواتین جس طرح کے فیشن کر کے باہر نکلتی ہیں۔ کچھ مرد انہیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ "

اور یہ کسی جیدے کن ٹٹے کے نہیں بلکہ ایک معزز پارلیمنٹیرین کے الفاظ ہیں کہ "مٹھائی پر مکھی تو آئے گی"۔ ان سب معززین کا خیال ہے کہ جو عورت فیشن سے دور ہے، سات پردوں میں رہتی ہے، آواز اونچی نہیں کرتی، غیر مردوں سے فاصلہ بنا کر چلتی ہے، مخلوط تعلیم کے ماحول سے محفوظ ہے، دینی فرائص پر کاربند ہے اس کا ریپ نہیں ہو سکتا۔ مگر چار برس کی بچی اس خود ساختہ فریم میں کیسے فٹ ہو؟ اس پر اکثر زبانیں اِدھر اُدھر دائیں بائیں کی ہچر مچر شروع کر دیتی ہیں۔

ہم میں سے شاید ہی کوئی اس نظریے کا وکیل ہو کہ جتنا پردہ جسم کا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ آنکھ کو پردے کی ضرورت ہے جس میں پُتلی کی جگہ اکثر ایکسرے پلانٹ نصب ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ پہلی نگاہ قابلِ درگزر ہے مگر دوسری نگاہ کی نیت کے تم خود ذمے دار ہو۔ اس بابت ہر طرح کے سروے کم از کم ایک نکتے پر متفق ہیں کہ ستر فیصد ریپ ان کے ہاتھوں ہوتے ہیں جنہیں گھروں میں محرم، معزز، سمجھ دار اور بڑا سمجھ کے آنے جانے اور رہنے سہنے کی اجازت ہوتی ہے۔

گھر کی خواتین اور بچے انہیں احترام کے رشتوں سے پکار رہے ہوتے ہیں اور وہ ان عورتوں اور بچوں کو کسی اور زاویے سے ناپ رہے ہوتے ہیں۔ اور جب واردات ہو جاتی ہے تو نوے فیصد واقعات میں یہ وارداتیں گھر کے مکینوں کے سینوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ بات باہر نکل گئی تو بہت بدنامی ہو گی۔ بس وہ کہانیاں باہر آتی ہیں جن میں متاثرہ کردار زخمی یا قتل ہو جائے۔ باقی سب کچھ خوف اور "دنیا کیا کہے گی" کی موٹی سانس گھوٹ چادر تلے دفن ہو جاتا ہے۔

اور اگر کوئی مظلوم کردار معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے، جرات دکھانے اور کھُل کے بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کے منہ پر اس عزت کا تو بڑا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا ریپ کے بعد کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ حقوقِ نسواں کی ٹھیکیدار تنظیموں کی نمائندہ خواتین فارن فنڈنگ سے خریدے مہنگے پرفیومز سے مزین کچھ پورے اور کچھ آدھ کپڑے پہنے کس عورت کی وکالت کرتی ہیں؟

مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ جبر، دھونس، بنامِ غیرت قتل، بے جوڑ شادیاں اور جنسی استحصال اس معاشرے میں عورت کے اصل مسائل ہیں۔ انہی مسائل کے چلتے اور ان پر خاموش رہتے الٹرا منافق مرد اپنے ہی ہم جنس اقبال کے مصرعے کو بھی دُہراتے رہتے ہیں "وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ"۔

Check Also

Qayamat Ki Ghari Hogi

By Syed Mehdi Bukhari