Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Tu Nishan e Azm e Aali Shan

Tu Nishan e Azm e Aali Shan

تو نشان عزم عالی شان

خاک سے اٹی صبحوں، دھول بھری دوپہروں، ہوائی بگولوں سے سجی شاموں اور خنک سردی سے لبریز راتوں کی سرزمین بلوچستان میں کھڑا اس سوچ میں گم تھا کہ سلسلہ روزگار سے وابستہ میں پہاڑوں، دریاؤں، ریتیلی زمینیوں، سمندرو‍ں سے ہوتا آج صحرائی پٹی میں پہنچ گیا۔ یہ اکتوبر کا اختتام تھا۔ بھربھرے خشک پہاڑوں پر دھوپ چمکے تو پسینہ آ ہی جاتا ہے۔ تیز ہوا کے جھونکے آئے۔ گرد و غبار کا طوفان چلا۔ منظر خاک سے بھرتا گیا۔ ان خاکستری لمحوں میں میرا دھیان بلوچستان میں بسی ان بستیوں، لوگوں اور راہگزروں کی طرف چلا گیا جنہوں نے میری مہمان نوازی کی تھی، جہاں میرے قدم پڑ چکے تھے۔

بطور سیاح ان دیکھی زمینیوں کی جانب سفر کرنا، بطور فوٹوگرافر نئے نئے مناظر کو قید کرنا اور بطور لکھاری اپنے سچے تاثرات کا اظہار کرنا ہی میرا مکمل وجود ہے۔ جہاز نے کوئٹہ کے لئے پرواز بھری۔ کھڑکی سے باہر بلوچستان کا خشک، پتھریلا اور وحشت بھرا وسیع لینڈاسکیپ نظر میں رہا۔ ان بے آباد ویرانوں میں کہیں کہیں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب کالے نقطوں سے نظر پڑتے۔ جہاز نے وادی کوئٹہ کا چکر کاٹا تو نیچے بسی وادی کا فضائی منظر دیکھ کر مجھے بچپن کا کوئٹہ یاد آنے لگا۔

شام ہونے آئی تو میں نے کوئٹہ شہر میں آوارگی کی خاطر ہوٹل چھوڑا اور سڑکوں پر گم ہونے نکل گیا۔ شہر کی رونقیں حالیہ سالوں میں دہشت گردی کی وجہ سے ماند پڑی ہوئی ہیں۔ میں جہاں جہاں چلا میرے بچپن کا بارونق کوئٹہ میرا ہمسفر رہا۔

مجھے یاد ہے بیس سال پہلے کا کوئٹہ جب میں چودہ سالہ معصوم لڑکا ہوتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں باپ نے کوئٹہ لے آنا۔ یہاں میرے اک چچا مقیم تھے۔ چچا سگے نہیں تھے مگر والد صاحب کے ساتھ ان کے بہت قریبی دیرینہ تعلقات تھے۔ مری آباد میں آباد ان کے گھر کے کھلے کچے آنگن میں سیب کے دو درخت لگے ہوا کرتے جن پر گرمیوں میں ننھے کچے سیب لگا کرتے۔

میں دوپہروں کو درختوں پر چڑھ جاتا اور کچے سیب اتار کر کھایا کرتا۔ جب کوئی بڑا دیکھ لیتا تو ڈانٹ پڑتی۔ مری آباد کی گلیوں میں اکیلا بھاگا کرتا۔ مقامی بچے وقتی دوست بن جاتے اور ہم فٹ بال کھیلنے نکل جایا کرتے۔ تب پنجابی و بلوچ و پشتون میں تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ تب کوئی کسی کو نہیں پوچھتا تھا کہ کون ہو۔ نفرتوں کی بجائے کوئٹہ کی فضا میں خلوص و محبتیں سمائی تھیں۔

حنہ کی جھیل پانی سے بھری ہوا کرتی۔ کوئٹہ شہر سے لے کر حنہ تک سڑک کے دونوں اطراف صاف ٹھنڈے میٹھے پانی صاف ستھری پکی نالیوں میں بہا کرتے تھے۔ حنہ کو جاتی سڑک کے دو طرفہ سیبوں کے باغات ہوا کرتے جن کی شاخیں پھل کے بوجھ سے سڑک پر جھکی ہوتیں۔ میں چلتی گاڑی سے ہاتھ بڑھا کر سیب اتار لیتا۔ حنہ جھیل پر پکوڑے ملا کرتے جن کا ذائقہ آج تک ذہن سے نہ نکل سکا۔ سریاب روڈ ہو یا پرنس۔ دن رات رونق رہتی۔ مزے مزے کے کھانے تیار ہوا کرتے۔ بچپن کا کوئٹہ گم ہو گیا ہے۔۔

اس شہر نے مسلسل پندرہ سالوں تک خشک سالی دیکھی۔ بارشیں روٹھ چکی تھیں۔ پانی کا نام و نشان نہیں رہا۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔ خشک سالی کے باعث لوگوں کے جانور یا تو مر گئے یا انہوں نے اونے پونے داموں بیچ دئیے۔ کوئٹہ میں اب بس ریت اڑتی ہے۔ حنہ کی جھیل ختم ہو چکی اب وہاں خشک بھربھرا میدان ہے۔ کافی سارے باغات کٹ گئے ہیں۔ کوئٹہ اجڑا ہوا لگتا ہے۔ بیس سالوں میں محرومیوں، کدورتوں، نفرتوں اور دشمنیوں نے قبائل کے بیچ ڈیرے جما لئے ہیں۔

بے رونق رات میں آوارگی کرتا واپس ہوٹل پہنچا۔ خواب میں حنہ جھیل آتی رہی جس کے اطراف سیب کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

اگلی صبح میرے ادارے کے ڈرائیور نے مجھے لیا اور میں قلعہ عبداللہ کی سمت چل پڑا۔ کوئٹہ سے 70 کلومیٹر دور قلعہ عبداللہ برباد ہے۔ کبھی آباد ہوا کرتا تھا اب وہاں جنگ سا ساماں ہے۔ محمود خان اچکزئی کے قبیلے کی اپنے مخالف اچکزئی قبیلے سے جنگ ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگ اس جنگ میں مر چکے۔ دونوں جوانب سے بھاری گولہ باری ہوتی ہے۔

بستیاں کھنڈر بن چکی ہیں۔ لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ ایسی بربادی ہے جیسے جنگ کے بعد بستیوں کی بستیاں زمین بوس ہو چکی ہوں۔ دونوں قبائل مورچہ زن ہیں۔ قلعے بنے ہوئے ہیں۔ مارٹر گولے ایک دوسرے پر فائر ہوتے ہیں۔ بیواؤں کی بہتات ہے یتیموں کی فراوانی۔ گزشتہ پچیس سالوں سے جاری اس قبائلی جنگ نے بازاروں کے بازار اور گاوؤں کے گاوؤں کھنڈر بنا دئے ہیں۔

تباہ حال بستیوں میں ہوا بہہ رہی تھی۔ ڈھ چکے مکانوں کی آدھ کھڑی دیواروں کے بیچ چلتے میں ان بیواؤں کا سوچ رہا تھا جو مجھے کچھ دیر قبل ملی تھیں۔ اس اجاڑ بستی سے کچھ فاصلے پر آباد گاؤں ہے۔ وہاں دستکاری سینٹر کھُلا ہوا ہے۔ یہ بیوائیں اب گزر بسر کی خاطر سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ بلوچی کڑھائی سے مزین خوشنما رنگوں والے سوٹ کے پیچھے کیسی کربناب داستانیں ہیں۔

دستکاری سینٹر میں آٹھ دس بلوچ خواتین کام میں مشغول تھیں۔ ایک بوڑھی بلوچ بیوہ سے میں نے پوچھا "اماں، سلائی کڑھائی کر کے آپ کا گزارہ ہو جاتا ہے؟"۔ اماں نے سلائی مشین سے نظر اٹھائے بنا جواب دیا "کبھی ہو جاتا ہے، کبھی دو تین دن بھوکا بھی سونا پڑتا ہے"۔

"اماں ایک سوٹ کتنے عرصے میں تیار ہوتا ہے اور اس کی کیا قیمت ہے؟"

اماں نے مشین سے نظر ہٹائے بنا جواب دیا "ایک دن میں سیا جاتا ہے مگر کڑھائی ہاتھ سے ہوتی ہے۔ اس میں ایک ہفتے سے دو ہفتے بھی لگ جاتے ہیں۔ ایک تیار لباس کی قیمت آٹھ سو روپے ہے"۔

یہ جواب سن کر میں سوچنے لگا کہ وہ لباس جو دس سے چودہ دن میں تیار ہو کر آٹھ سو میں ان بیواؤں سے بکتا ہے اس کے بارے کوئٹہ بازار سے قیمت معلوم کرنا چاہی تھی۔ نور خان نے جواب دیا تھا " وی آئی پی ورائٹی ہے۔ جھوٹ نئیں بولتا۔ سارا ہاتھ کا کام اے۔ نو ہزار سے ایک روپیہ کم چھوڑا تو سمجھو اپنے ساتھ خیانت کیا"۔

"آپ سب کے بچے سکول جاتے ہیں؟" میں نے بات کا موضوع بدلتے پوچھا۔

سب نے یک زبان ہو کر نہ صرف بتایا کہ سکول جاتے ہیں بلکہ سکول کی راہ بھی سمجھا دی۔ وہاں سے نکل کر میں نے سوچا ذرا سکول کا حال معلوم کیا جائے۔ میں اس سمت کو چل دیا۔

گاؤں کے اطراف میں اک سکول ہے جس کی تین دیواریں ڈھ چکی ہیں بس اک دیوار باقی ہے جس پر گیٹ نصب ہے۔ گیٹ کیوں نصب ہے اس کی سمجھ نہیں آ سکی۔ اس سکول کے صحن سے کھڑے ہو کر پیچھے ریت کے ٹیلے دِکھتے ہیں۔ جب ہوا چلتی ہے سکول میں چھٹی ہو جاتی ہے۔ گرد و غبار کا طوفان اُٹھتا ہے اور سکول تک آتا ہے۔

اس سکول میں زین بلوچ ماسٹر ہے جو بچوں کو پڑھاتا ہے " کشور حسین شاد باد" جب بچوں کو پیاس ستاتی ہے تو پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ بچے مختصر چھٹی لے کر اپنے گھر واش روم استعمال کرنے یا گندا پانی پینے جاتے ہیں اور واپس آ کر پھر دہرانے لگتے ہیں "تو نشان عزم عالی شان۔"۔

Check Also

Al-Raheeq Al-Makhtoom

By Zafar Iqbal Wattoo