Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Teesra Kaun?

Teesra Kaun?

تیسرا کون؟

روس کی راجدھانی ماسکو سے چار گھنٹے کی سپیڈ ریل کی مسافت پر دریائے وولگا کے کنارے ایک انتہائی خوبصورت شہر نژنی نووگورڈ ہے۔ یہاں کی آبادی آرتھوڈوکس کرسچن ہے۔ انتہائی مذہبی رجحان رکھتے ہیں۔ سویٹا وہاں میری ہوسٹ تھی۔ ہوسٹ یوں کہ سوشل میڈیا ایپ کوچ سرفنگ پر میں نے روس کے دورے کے بارے لکھا اور یہ بھی کہا کہ نژنی نووگورڈ کے کیتھڈرلز کو دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔ ان چرچوں کے گنبد کمال ہیں اور ان پر ہوئی نقش و نگاری کا کوئی ثانی نہیں۔ سویٹا نے مجھے میسج کیا کہ وہ میری میزبانی کرنا چاہے گی اور شہر کا وزٹ بھی کرائے گی۔

سویٹا بہترین ہوسٹ تھی۔ پلیٹ فارم پر ملی اور ملتے ہی اس نے یہ احساس نہ ہونا دیا کہ دو اجنبی مل رہے ہیں۔ باتونی تھی۔ مگر باتیں کرتے ہنستی جاتی تھی۔ اس کی آدھی باتیں تو اس کی کمزور انگریزی کے سبب مجھے سمجھ نہ آتیں مگر چونکہ وہ ہنستی تھی تو مجھے لگتا کہ کوئی مزاحیہ بات ہی ہو گی چنانچہ میں بھی ساتھ دینے کو مسکرا دیتا۔ میرے لئے یہی غنیمت تھا کہ روس میں کوئی تھوڑی بہت انگریزی جانتا ہے اور مجھے اپنے شہر کا وزٹ کروا رہا ہے۔

دریائے وولگا میں فیری رائیڈ لی، کیتھڈرلز دیکھے، شہر کی رنگین گلیاں گھومیں، کریملن کی سیر کی، روسی ادیب میکسم گورکی کا آبائی گھر وزٹ کیا۔ شام ڈھل کر رات میں بدل گئی۔ شہر کی گلیاں سنسان ہونے لگیں۔ سویٹا اتنی بے تکلف مزاج کی تھی کہ پہلے تو صرف باتیں کرتے ہنستی تھی ملاقات کے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ جوک سنا کر ہاتھ پر ہاتھ بھی دے مارنے لگی اور شام ڈھلنے تک اسے اور کچھ نہ سوجھتا تو بے تکلف دوست کی مانند کاندھے سے کاندھا لگا کر ہلکا سا دھکا بھی دے دیتی۔ یہ وہ اس وقت کرتی جب اس کی کسی بات کی مجھے سمجھ نہ آتی۔ ایسا کرکے وہ اپنے تئیں مجھے ہوش دلانا چاہتی کہ تمہارا دھیان کدھر ہے؟

ایک چھوٹے سے ریستورنت سے کھانا کھا کر نکلنے تک رات کے دس بج چکے تھے۔ روس میں ماسکو اور سینٹ پیڑزبرگ جیسے بڑے شہروں کو چھوڑ کر یہ وقت آدھی رات جیسا تھا۔ لوگ رات آٹھ بجے کھانا کھا کر گھروں میں سمٹ جاتے ہیں۔ بادل گھر آئے تھے اور پھر بوندا باندی شروع ہونے لگی۔ اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے کے واسطے میٹرو لینا تھی۔ یہ انڈر گراؤنڈ سٹیشن نہیں بلکہ زمین کے اوپر واقع سٹیشن تھا۔ اردگرد کوئی بندہ بشر بھی نہیں تھا۔ ہلکی بوندیں برس رہی تھیں۔ سٹیشن پر کھڑے کافی وقت بیت گیا۔

سویٹا مجھے تسلی دینے کو کہتی"بس کچھ دیر میں آ جائے گی"۔ مگر بس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھی۔ اس نے انتظار میں سٹیشن کے گیلے بینچ کر بیٹھے میرے کاندھے پر سر رکھ دیا۔ پہلے تو میں چونکا پھر سوچا کہ خیر ہے تھک گئی ہے بیچاری۔

پانچ منٹ بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ٹہلنے لگی۔ میں بھی بینچ سے اٹھا اور اسے بولا "لعنت بھیجو میٹرو پر۔ تم ٹیکسی کال کرو۔ بل میں دوں گا"۔ اس نے سن کر انکار میں سر ہلایا اور بولی "بس کچھ دیر اور۔ بس نے آخر آنا ہی ہے"۔ صاحبو، بس نہیں آئی۔ ایک تو موسم ہلکا سرد ہو رہا تھا، اوپر سے سویٹا عجب لگ رہی تھی۔ اور پھر اس نے کاندھے سے کاندھا ملا کر میرا بازو تھام رکھا تھا۔ یہ روس میں تو دوستی کا عام کلچر تھا مگر ہمارا تو نہیں تھا ناں۔ آخر میری شرارتی رگ پھڑکی۔ میں نے اسے کہا "سویٹا! آخر ہم تینوں کب تک یہاں کھڑے رہیں گے؟"

سویٹا نے چونک کر دیکھا اور بولی "چلو پیدل ہی چلتے ہیں۔ دو کلومیٹر ہی تو چلنا ہوگا۔ لعنت بھیجو بس پر"۔ ہم پیدل چلنے لگے۔ سارا راہ وہ رہ رہ کر پوچھتی "ہم تو دو لوگ ہیں۔ تم کس تیسرے کی بات کر رہے تھے؟ وہاں اور کون کھڑا تھا؟"۔ میں اسے ہنس کر کہتا "ارے کچھ نہیں ایسے ہی کہہ دیا تھا"۔ فلیٹ پہنچنے تک اس کو یقین ہو گیا کہ میں ایک زبردست سی روحانی طاقت رکھتا ہوں اور میں اس لئے کسی اور کو بھی دیکھ رہا تھا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ بقول سویٹا "کیتھڈرل میں مریم کے مجسمے تلے کھڑے تم آنکھیں بند کئے شاید دعا کر رہے تھے جبکہ تم مسلم ہو۔ مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ تم میں spiritual power ہے"۔

Check Also

Parliman Ko Door Se Salam

By Nusrat Javed