Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Safar e Zeest

Safar e Zeest

سفرِ زیست

عمر کے اُنتالیس سال گزارنے کے بعد اب جب بالوں میں چاندی اُترنے لگی ہے اور رنگ تانبے جیسا تپنے لگا ہے، گئے زمانوں، بچھڑتے لوگوں، رشتوں، عزیزوں کی مانند پڑتی شکلیں کبھی ذھن میں آئیں تو آنکھ بھر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ بچپن کے ایک دوست وقار جعفری کے ایک خودکش حملے نے چیتھڑے اڑا دیئے۔

بچپن کا دوست جس سے انسان کلومیٹر ساتھ چلنے کے لیے نہ نہیں سن سکتا، وہ اتنے سارے حصوں میں زندگی بھر نہ کرتا رب کے پاس نکل گیا۔ جعفری قصور کیا تھا؟ اس کا قصور اتنا تھا کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھنے سیالکوٹ امام بارگاہ میں چلا گیا تھا۔ والد کو جگر کا کینسر کھا گیا تو بعد میں والدہ کے گردے فیل ہو گئے۔ موت کو سبھی کسی نہ کسی شکل میں دیکھتے ہیں۔ میرے حصے میں دکھ یہ آیا کہ میرے اردگرد کوئی بھی شفایاب موت نہیں مرا۔

لا اینڈ آرڈر اور فقہ ورانہ فساد کی لہر بچپن کے گہرے اور اکلوتے دوست کو نگل گئی۔ ہسپتالوں کی حالتِ زار اور ڈاکٹروں کی لا پرواہی، غیر تسلی بخش علاج میرے والدین کو کھا گیا۔ عمر کا ایک حصہ ہسپتالوں نے لے لیا اور ایک حصہ کتابیں لے گئیں۔ باقی نوکری کھا گئی۔ پڑھ لکھ کے نوکری ملی اور حکومت کو ٹیکس دیتے باقی عمر بھی گزر جائے گی لیکن خون کے دھبے کئی برساتوں کے بعد بھی نہیں دُھلنے والے۔۔ دھلیں تو کیسے؟ خون عبادت گاہوں میں بہے، ہسپتالوں میں، تھانوں میں یا سڑکوں پر۔۔ یہ دھبے تاحیات دل و جگر پر زخم کے نقوش چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کوئی یاد دلائے یا خود یاد آئیں، انہیں سوچنا ایک اذیت ہی رہتا ہے۔

ہاں مگر غم کو بیچا نہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور تصویر کشی یا مصوری اور دل بہلانے کو نگر نگر کی سیاحت یہی کُل اثاثہ ہے اور اسی حوالے سے لوگ مجھے جانتے ہیں۔ ادبی کانفرنسوں، لکھاریوں کی محفلوں، فوٹوگرافی کی نمائشوں، فوٹو والک، میٹنگز، وغیرہ وغیرہ کے دعوت نامے موصول ہوتے رہتے ہیں پر میں کہیں نہیں جاتا اس کی وجہ یہ کہ میں آئسولیشن میں یا اکیلے ایزی رہتا ہوں اور مجھے پتہ ہے میرے نہ جانے سے کئی لوگ ناراض ہیں، کئیوں کو گلہ ہے جو شاید بجا گلہ ہے، اور کئی سمجھتے ہیں کہ مجھ میں بہت زیادہ انا ہے اس لیئے ملتا جُلتا نہیں۔ ٹھیک ہے۔ جہاں ساری زندگی خون دیکھا، المیئے دیکھے، موت دیکھی، لوگوں کی کج ادائی سہی وہاں ایک آدھ بات خود کے لیے سننا کون سا بڑا مسئلہ ٹھہرا؟

کئی لوگوں کے خیال میں میں سیلف سنٹرڈ انسان ہوں۔ اپنے میں کھویا ہوا۔ ہر حساس ذہن نے سیلف سنٹرڈ سی زندگی ہی گزاری ہے۔ میں انا کا شکار ہوں یا نرگسیت کا جو بھی ہے، جو کوئی جیسا بھی سمجھے اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے اس لئیے بھی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے آج تلک کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کو مانگے کی سیڑھی استعمال نہیں کی۔ کبھی کسی سے فیور مانگی نہ کسی کی منت کی۔ فاقے بھی جھیلے اور وہ دن بھی دیکھے کہ دنیا کے سیون سٹار ہوٹل میں ٹھہرا اور ایک دن کا معاوضہ لاکھوں میں لیا۔

ٹیکسی بھی چلائی اور مشہور زمانہ لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران اپنے فن کی داد بھی سمیٹی۔ الغرض جس شخص نے اونچ نیچ، عروج و زوال، بھوک و امارت سب دیکھ رکھا ہو اور اپنے قدموں پر اللہ کے کرم اور اپنے بَل پہ کھڑا ہو اس کو دنیا کے کسی بھی شخص کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ کوئی اس کے بارے کیا سوچتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جس وقت اپنے تمام تر ہنر کے ساتھ بھی میں معاشیات سے لڑ رہا تھا تب کسی نے پلٹ کر کیوں نہ پوچھا کہ اپنی مشکلات کو لے کر تم سیلف سینٹرڈ کیوں ہو؟

نرگسیت، سیلف سینٹرڈ، خود پسندی یہ تمام خیالات سوچنے والوں کو تب کیوں نہیں آتے جب میں اپنی قسمت سے نبرد آزما تھا، جب میں گردش دوراں میں الجھا پڑا تھا؟ جعفری خود کش حملے میں دور چلا گیا، میں اس کے غم میں پڑا رہا۔ کوئی تو کہتا کہ بخاری میرا کاندھا حاضر ہے۔ جب میں ہسپتالوں میں دھکے کھا رہا تھا تب بھی میں خود میں مگن تھا۔ کاش برے وقت میں بھی مجھ سے کوئی بھی تعلق رکھنے والے اتنا ہی سوچا کرتے۔

ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب میں مالی حالات کے سبب اپنا فوٹوگرافی کا سامان یعنی کیمرا اور لینزز وغیرہ بیچ رہا تھا اور میرے ہی دوست اس کی مارکیٹ سے بھی کم قیمت لگا کر سستے داموں چوری کا مال سمجھتے ہوئے خرید رہے تھے۔ مجھ سے تو کسی نے نہیں پوچھا تھا کہ کیوں بیچ رہے ہو اور نہ میں نے کسی کو بتایا تھا نہ کسی نے ادھار مانگا تھا۔ تب بھی میں سیلف سینٹرڈ ہی تھا۔

یوں بھی میں ماضی میں جیتا ہوں۔ میری تحاریر ہی ماضی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مجھے اپنا اچھا برا وقت سب ایسے ہی یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ناسٹالجیا کے مریض ویسے ہی آدھے پاگل ہوتے ہیں۔ خوشی میں دکھ کی پنکی ملانا عادت ہے۔ جب کیمسٹری کی لیب ہوا کرتی تھی تب بھی پسندیدہ کام اساس میں پنکی ملا کر اس پر تیزاب ڈالتے رہنا تھا جب تک پنکی کا رنگ تحلیل ہو کر محلول بے رنگا نہ ہو جائے۔ آپ سمجھ لیں مہدی بے رنگا ہوچکا ہے۔ بس کبھی کبھار خوش ہوجایا کرتا ہے تاہم ایسا جب بھی ہو جلد از جلد غم کی پنکی ملا ہی لیتا ہے۔ اور زیادہ خوش دکھائی دے تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ دو چار سنا دیا کریں۔ آسان حل ہے۔

انسان اپنی ذات میں خوبیوں و خامیوں کا مرکب ہے۔ اس میں علم و دانش بھی ہے اور کج ادائی بھی۔ کھلنڈرا پن بھی ہے، سنجیدگی بھی، طنز و مزاح بھی ہے اداسی بھی۔ انسان کے مزاج بدلتے رہتے ہیں، وہ اندرونی و بیرونی عوامل سے اثر لیتا ہے۔ انسان اپنی تمام صفات و عادات و خامیوں سمیت زندہ ہے۔ میرے جیسے لوگ انسانی بے ساختہ پن مانگتے ہیں۔ مجھے نہ خود کو کسی مقدس کھونٹی پر ٹانگنے کی تمنا ہے نہ اپنے نام کے ساتھ دامت برکاتھم لکھا دیکھنے کا متقاضی ہوں۔

میں ایک مسافر ہوں، بہت کچھ دیکھتا، سنتا، پرکھتا ہوں اور اپنے جذبات کا کھلا اظہار کرنے کا عادی ہوں۔ نہ میں گدی نشین ہوں نہ پیر۔ نہ سیاست کرنی ہے نہ ووٹ مانگنا ہے۔ نہ سرکاری عہدے کی کوئی خواہش ہے نہ کسی پنچایت کا رکن بننا چاہتا ہوں۔ میں تو اپنی ذات میں مست انسان ہوں۔ نہ مجھے کسی سے سروکار ہے نہ میں کسی پر آسانی سے کھلتا ہوں۔ جو سوچ سمجھ پروردگار نے بخشی اس کے مطابق اپنا کام پیش کر دیتا ہوں۔

لہذا گزارش یہ ہے کہ نہ میں مسجد کا امام ہوں نہ مجھے کلبوں میں ناچنے کا شوق ہے۔ میں ایک عام انسان ہوں اپنے پورے فطری جذبات کے ساتھ۔ فنکار گملے کا بوٹا نہیں ہوتا، خود رو ہوتا ہے۔ فنکار ٹیڑھی لکیر ہوتا ہے دوستو، سیدھی کرنے کی کوشش کرو تو ٹوٹ جاتا ہے۔۔ لہذا ججمنٹل ہونا چھوڑئیے اور یہ توقع پالنا ہی بیکار ہے کہ کوئی شخص آپ کی منشاء کے مطابق ڈھل جائے یا جیسا آپ چاہتے ہیں وہ ویسا ہی روپ دھارے۔

میرا خیال ہے اپنے طریقے سے زندگی گزارنا آپ سب کی طرح حق ہے یہ بھی۔ کچھ احباب یہ حق چھیننے کی کوشش کر سکتے ہیں، اس حق پر لیبل ڈالنے کی سعی لاحاصل بھی کر سکتے ہیں، بصد شوق، ہاں اتنا یاد رہے کہ مہدی بخاری اپنے بھلے وقت میں اتنا ہی سیلف سینٹرڈ ہے جتنا اپنے برے وقت میں تھا۔

کیا عزیز، کیا دوست اور کیا رشتے دار تب سب کے سب غائب تھے۔

Check Also

Dyslexia

By Khateeb Ahmad