Pre Digital Age Aur Digital Age Nasal
پری ڈیجیٹل ایج اور ڈیجیٹل ایج نسل
سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلی دو دہائیوں میں زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔ میری نسل آخری پری ڈیجیٹل ایج نسل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دو ہزار چالیس یا پچاس کے کسی ایک دن آپ کی کلائی پر بندھی گھڑی کے سائز کی ایک ہزار ٹیٹرا بائٹ طاقت والی کمپیوٹر اسکرین پر یہ خبر ضرور چمکے گی کہ آج پری ڈیجیٹل دور کے آخری انسان جان سنو کا الاسکا میں انتقال ہو گیا۔
عین ممکن ہے کوئی عجائب گھر جان سنو کے جسد کو حنوط کر کے کانچ کے شو کیس میں رکھ دے۔ بالکل ویسے جیسے قاہرہ کے عجائب گھر میں نو فرعونوں کی لاشیں مصالحہ لگا کر رکھی گئی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کوہ الپس کی اونچائیوں میں برف تلے دبے پتھر کے زمانے کے انسان کی محفوظ لاش کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ تا کہ آج کی نسل اپنے پرکھوں کے بارے میں مزید جان سکے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلی دو دہائیوں میں زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہو گا اگر میں کہوں کہ کتنی بدل جائے گی۔ زندگی بدلتی ہے تو اقدار بھی بدل جاتی ہیں جیسے میری نسل پری ڈیجیٹل دور کی ہے اور میرے بچے فلی ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں۔ جب پری ڈیجیٹل ایج میں اگر کوئی رشتے دار مر جاتا تو ہمیں چل کے جانا پڑتا۔ انتظامات میں ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔ رونے والوں کو اور پھر میت کو کاندھا پیش کرنا پڑتا۔
قبرستان سے واپسی پر دعائے مغفرت کے بعد، نیاز چکھنے کے بعد کہیں سرگوشی میں رخصت طلب کی جاتی۔ اب کتنا آسان ہو گیا ہے۔ فیس بک یا ایس ایم ایس یا وٹس ایپ کے ذریعے کسی کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو ہم رئیل ٹائم میں اناللہ ٹائپ کر کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔ مگر اناللہ تو ہم جیسے دقیانوسی لکھتے ہیں۔ آج کل ریسٹ ان پیس زیادہ ٹرینڈی اور آر آئی پی (RIP) تو بہت ہی کول اور ڈینڈی ہے۔
ہم پری ڈیجیٹل ایج والوں کو سالگرہ میں چل کے جانا پڑتا تھا اور وہ بھی تحفہ لے کر۔ عید پر کارڈ خرید کے پوسٹ کرنا پڑتا تھا اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ عید سے پہلے سجنے والے بیسیوں اسٹالز پر جا کے، کارڈ پسند کر کے انہیں لفافے میں ڈال کر گیلے لبوں سے گوند سے آلودہ لفافے بند کر کے، سپرد ڈاک کرنا پڑتا۔ یہ رسم بھی تھی اور سماجی مجبوری بھی۔
اب کتنا آسان ہے۔ سالگرہ کا ڈیجیٹل کیک، کھلونے اور ہیپی برتھ ڈے کا جگل سب کچھ ایک کلک میں یہاں سے وہاں۔ نہ بھیجنے والے کو کوئی خلش نہ وصول کرنے والے کے دل میں میل۔ پری ڈیجیٹل ایج میں تازہ اور فحش لطیفے تب نصیب ہوتے تھے جب بے تکلف دوست آپس میں مل بیٹھتے تھے۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ قہقہوں کے درمیان کب دوپہر سے شام ہو گئی؟
آج چونکہ "ٹائم از منی" ہے لہٰذا کسی بھی اچھے جملے یا لطیفے پر کھل کے قہقہہ لگانا بھی وقت ضائع کرنے جیسا لگتا ہے۔ اتنے وقت میں آدمی چار پیسے اور کمانے کے بارے میں کیوں نہ سوچے؟ اب ایل او ایل (LOL)کا زمانہ ہے۔ بلکہ لول لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ایک ہنستے مسکراتے کارٹونی چہرے کا ٹمپلٹ جواباً بھیج دینا کافی ہے۔ آپ بھی خوش، لطیفہ بھیجنے والا بھی شاداں۔
پری ڈیجیٹل ایج میں کوئی کالم یا مضمون یا تبصرہ پڑھ کے ہم جیسے کھوسٹ اسے پسند یا مسترد کرتے تھے۔ پڑھنے اور پھر اسے سمجھنے اور پھر لطف اندوز ہونے میں کچھ وقت لگتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل ایج میں ہر آدمی کی رفتارِ، پڑھت روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے۔ ادھر میرا کالم فیس بک پر لگا نہیں اور صرف تین سیکنڈ بعد پہلا لائیک آیا نہیں۔ میں حیران ہو جاتا ہوں کہ لائک کرنے والا کتنا لائق ہے کہ تین سیکنڈ میں پڑھا، سمجھا اور رائے بھی دے دی۔
میری نسل کے لوگ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا ہم ایسا کر سکتے تھے؟ پھر بھی ہم ڈیجیٹل نسل کو کوسنے سے باز نہیں آتے کہ کم بخت پڑھتے نہیں۔ پری ڈیجیٹل ایج میں سے ہر ایک کے محض چار پانچ ہی قریبی دوست اور دس بارہ جاننے والے ہوا کرتے تھے۔ کوئی پچاس اجنبی ایسے بھی تھے جو ہمارے اور ہم ان کے چہرہ شناس ہوتے تھے۔ راہ چلتے یا بس میں مل گئے تو مسکرا کے دیکھ لیا۔
اب اتنا کشٹ اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹا پر ایک ایک اکاؤنٹ بنانا ہے۔ دو چار مہینے میں چار پانچ ہزار دوست تو بن ہی جائیں گے۔ جو ڈیجیٹلی وفادار ہوں گے، ڈیجیٹلی محبت کریں گے اور ان میں سے ہزاروں تو وقت پڑنے پر آپ کے ساتھ کھڑے ہونے حتیٰ کہ جان نچھاور کرنے کا بھی وچن دیں گے۔ چچا غالب ہم سے بھی زیادہ سیانا نکلا۔ اس نے پونے دو سو برس پہلے ہی سوشل میڈیا کی دوستیوں پے تین حرف بھیج دیے تھے۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا۔
پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں بھیس یا بہروپ بدلنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ اب کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ میرا ایک دوست، لکھاری، فنکار (نام بتانا مناسب نہیں) جب بیمار پڑا اور اس نے فیس بک پر لکھا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں تو پورے چوبیس گھنٹے میں صرف تین لوگوں نے لکھا "ارے کیا ہوا؟ اپنا خیال رکھئے، گیٹ ویل سون" وغیرہ۔ اس کا دل ٹوٹ گیا۔
اس نے کچھ عرصہ قبل برائے تفریح نیلوفر زیرو زیرو سیون کے نام سے ایک ٹوئٹر اور ایک فیس بک اکاؤنٹ بنا رکھا تھا اور اس اکاونٹ پر لکھا آج میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ صرف تین گھنٹے میں دو سو بہتر لائکس، ایک سو نو عیادتی ون لائنرز اور پانچ سو اکیس ٹویٹس آئے اور وہ بھی ہیش ٹیگ "نیلوفر از ناٹ ویل" کے ساتھ۔ کون کہتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت کی قدر نہیں؟ اب یوں ہے کہ میرے یار کو جب بھی بیمار ہونا ہو نیلوفر کے نام سے ہی ہوتا ہے۔
پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں فزیکلی منہ در منہ لڑائی کرنا پڑتی تھی۔ ہاتھوں سے طرح طرح کے ناقابلِ بیان اشارے کرتے ہوئے گالیاں دینا پڑتی تھیں اور اس کے نتیجے میں مار کٹائی اور زخما زخمی ہونے اور تھانے کچہری کی بھی نوبت آ جاتی تھی۔ آج کتنی سہولت ہے آپ کسی بھی فرضی نام مثلاً راکٹ چار سو بیس رکھ کے بغیر سامنے آئے جس کو جو گالی دینا چاہیں ڈیجیٹلی دے سکتے ہیں۔
ارے ہاں۔ چلتے چلتے گزارش ہے کہ میری وفات پر آر آئی پی (RIP) لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کیجیے گا کہ گوگل پر قبرستان کا نام بمعہ پن لوکیشن اور قبر کا نمبر ٹائپ کر کے ڈال دیجیئے گا۔ اور اگر کوئی ویب ڈیزائنر فین ایک ویب پیج بنا ڈالے تو جزاک اللہ۔ پیج جب سامنے آجائے تو ویب پیج پر دائیں جانب اوپر سے دوسرا خانہ جس پر دو پھیلے ہوئے ہاتھوں کا نشان ہو، اس پر ماؤس کا کرسر لا کے کی بورڈ پر ایف دبا دیجیے گا۔ ایف فار فاتحہ۔ ایک کلک سے آپ کا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے اوپر والا آپ کے کلک کے طفیل میری مغفرت کر دے۔