Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Pakistan Ki Badqismati

Pakistan Ki Badqismati

پاکستان کی بدقسمتی

پاکستان کی بدقسمتی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اس کے اپنے ہی باشندے اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ یا ان کو وہ بتایا ہی نہیں جاتا جس کا جاننا ان کا بنیادی حق ہے۔ عوام کو نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر سوال اٹھے گا کہ ہم کون ہیں، تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں؟

جب سے یہ ملک وجود میں آیا کوشش یہی رہی کہ اس کی عوام کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائیٹ پلان پر ہی دُبلا پتلا رکھا جائے۔ اور انہیں بس یہی بتایا جائے کہ آسمان اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے نیلا دکھائی دیتا ہے۔ کیا واقعی آسمان اتنا ہی ہے جتنا کنوئیں کے پانی میں نظر آ رہا ہے؟ یہ دنیا 249 ممالک، نیم خود مختار خطوں اور غیر آزاد ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں، آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں اعلانیہ جوہری طاقت ہے۔

اس دنیا میں پاکستان سمیت صرف چونتیس ممالک کے پاس گلیشئیرز کی صورت میں پانی محفوظ ہے۔ دنیا کے دس بڑے گلیشئیرز میں سے ایک "بیافو" پاکستان میں ہے جبکہ دنیا کے پانچویں بڑے گلیشئیر "سیاچن" کا بھی اچھا خاصہ حصہ پاکستان کی تحویل میں ہے۔ دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جبکہ پاکستان کے پاس بارہ سو کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے۔

دنیا کے بائیس ممالک کے پاس دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کا بائیسواں بڑا دریا "سندھ" اُنچاسواں بڑا دریا "چناب" سمیت کوئی خطہ، کوئی صوبہ ایسا نہیں جو دریا سے محروم ہو۔ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی آدھی آبادی بستی ہے وہاں پاکستان کے پاس میٹھے پانی کی بڑی جھیل "منچھر" سمیت پچاس قدرتی جھیلیں ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے۔

اس دنیا کے بائیس ممالک نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہو گا تو صرف تصاویر میں اور پاکستان کے پاس دنیا کا دوسرا بڑا پہاڑ "کے ٹو" سمیت پانچ دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلے (ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش) آپس میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یورپ صحرا سے خالی براعظم ہے جبکہ دنیا کا بیسواں بڑا صحرا "تھر تا چولستان" پاکستان میں ہے۔ پاکستان کا ریلوے نظام دنیا کا ستائیسواں بڑا نیٹ ورک ہے۔

اس وطن کی مٹی کی کیفیت یہ ہے کہ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ چاول کی برآمد کے حوالے سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی کی پیداوار کے حساب سے بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پیاز کی فصل جن ممالک میں سب سے زیادہ ہوتی ہے ان میں چین، بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔

چنے کی پیداوار میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ دالوں کی پیداوار کے لحاظ سے بیسواں نمبر ہے۔ کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے اس اعتبار سے ہم بھارت، امریکا اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہیں۔ البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس ممالک میں ہم شامل نہیں۔

بکریوں، بھیڑوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرا اور مٹن برآمد کرنے کے اعتبار سے بارہویں نمبر پر ہے۔ پولٹری کی پیداوار کے حساب سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ مگر پاکستان کو نصیب ان نعمتوں میں سے سب سے کم کسی کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ عوام ہیں۔ کسان آج بھی تنگ دست ہے اور عوام آج بھی دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں سرگرداں ہے۔ گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔

پاکستان اتنی گندم پیدا کرتا ہے کہ اسے برآمد بھی کیا جا سکتا ہے مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہمیں سالانہ بیس لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔ یہی حال چینی، سیمنٹ، چاول اور مٹن کا ہے۔ کئی اجناس امپورٹ کرنے کی نوبت آ چکی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ گندم، چاول، چینی، سیمنٹ سمیت اجناس کی اسمگلنگ ہے۔ نجی کمپنیاں یا کاروباری طبقہ خرید کر ایکسپورٹ کرتا جا رہا ہے اور دولتمند ہوتا جا رہا ہے جبکہ نہ کسان کی پوری پڑ رہی ہے نہ عوام کی۔

ظلم تو یہ ہے کہ ایکسپورٹ کر کے پھر امپورٹ کیا جاتا ہے اور یوں دونوں ہاتھوں سے پیسہ بٹورا جا رہا ہے۔ سندھ میں آٹھ لاکھ ٹن گندم طور پر چوہے کھا گئے! یہ "چوہے" جب تک کڑکی میں نہیں لائے جائیں گے یہاں کوئی جنس باقی نہیں بچے گی۔ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے اور چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے؟ اس کا الزام کس حکومت کے سر دھرا جائے؟ سب یہی کہہ کر جان چھڑواتے ہیں کہ ہمیں تو یہ سب ورثے میں پچھلی حکومت سے ملا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ الہ دین کا چراغ کسی کے پاس نہیں کہ راتوں رات سب ٹھیک کر دے مگر اے میرے حکمرانوں، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ گئی بھاڑ میں، نظام جائے جہنم میں، روزگار کی بکواس اپنے پاس رکھو۔ جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کر رہی ہے اگر اس کی ہی تقسیم کا نظام نہیں تو میں باقی کا کیا کروں؟

ملٹری اسلحہ برائے امن کی نمائش سر آنکھوں پے، خوراک برائے امن کی نمائش کب ہو گی؟

وفا، اخلاص، قربانی، محبت

ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ

تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم؟

Check Also

Az Toronto Maktoob (4)

By Zafar Iqbal Wattoo