Nasali Irtiqa Aur Nafsiyati Masail
نسلی ارتقاء اور نفسیاتی مسائل
میں 80 کی دہائی میں پیدا ہوا اور 90 کی دہائی میں کچھ ہوش سنبھالا جب سب سے مشہور کھیل "چھپن چھپائی"، "برف پانی " اور "اونچ نیچ" ہوتے تھے۔ جب سب سے بہترین میٹھے "پولکا"، "پاپ کارن" "جوبلی" اور "میچل ٹافی" ہوتے تھے۔ جب پیپسی 4 روپے کی ہوا کرتی تھی اور منی بوتل ڈھائی روپے کی۔ جب ہم ساڑھے سات بجے اسکول جانے سے پہلے پی ٹی وی پر کارٹون دیکھتے تھے اور شام کو عینک والا جن۔ جب ہمیں موویز دیکھنے کی اجازت نہ ہوتی تھی اور ہم پھر بھی کسی طرح مینج کر لیتے تھے۔ جب وی سی آر کے ساتھ پانچ انڈین فلمیں ملا کرتی تھیں جو ساری رات دیکھتے رہتے تھے۔
جب ہمارا بہترین اثاثہ "ببل گمرز شوز" ہوتے تھے۔ جب پچاس روپے عیدی ملنے کا مطلب ہوتا تھا کہ آپ امیر ہو گئے ہو۔ جب ہم " اکڑ بکڑ بمبے بو " سے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جب ہمارے لیے سب سے خوفناک چیزیں"تاریک کمرے" اور "قاری صاحب" ہوا کرتے تھے۔ جب بی ایم ایکس سائیکل پورے محلے میں جیلسی کا سبب ہوتی تھی۔ جب کرکٹ کھیلتے ہوئے اصول ہوا کرتا تھا کہ بال کا گھر میں جانا آؤٹ ہے اور جو ہٹ مارے گا وہی بال لے کر آئے گا۔ سکول میں ماسٹر جی کام نہ کرنے پر کھال کھینچ دیتے اور والدین الگ مرمت کرتے۔ سارا محلہ اپنا گھر محسوس ہوتا سب دروازے کھُلے ہوتے۔ جس کے ہاں دل کرتا بنا اجازت اندر داخل ہو جاتے۔ سب عورتیں خالائیں اور اماں تھیں۔
میرے سے پہلے والی جنریشن محنتی تھی۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا، شہر پھیلے نہیں تھے اور آمد و رفت کے ذرائعے بھی محدود تھے۔ میلوں پیدل کا سفر ہوتا یا کسی نے سفر کے لیے گھوڑا پالا ہوتا۔ ٹانگہ شہروں کی سواری ہوتی۔ مشروبات سادہ اور گھر کے بنے ہوتے۔ حقہ کلچر کا ایک حصہ تھا۔ خاندانی نظام بہت مضبوط اور پیچیدہ ہوتا جس کے فائدے بھی تھے اور نقصانات بھی۔ برداشت اس معاشرے کا اہم حصہ تھی تب لوگ مذہب پر، رسومات پر بحثیں نہیں کرتے تھے۔ ٹی وی سارا محلہ جمع ہو کر اکٹھا دیکھتا، گاؤں میں ریڈیو ہی چلتا۔ بجلی کے آنے جانے سے لوگوں کے کاموں میں خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ پیپل کی چھاؤں مسافر کے لیئے سرائے کا کام کرتی۔ جھگڑے میں ڈانگ ہی واحد خطرناک ہتھیار ہوتا اور خوشی میں کھیر اور حقہ۔ انسان کی مصروفیت شام ڈھلتے ہی ختم ہو جاتی اور چولہے رات دس بجے ٹھنڈے پڑ جاتے۔ لوگ سکون سے سوتے تھے۔ مارشل لا کا دور ہو یا جمہوریت یہ لوگوں کے مسائل نہیں بنے تھے۔
جس دور میں اب ہوں اور عمر کی اکتالیس بہاریں دیکھ چکا ہوں اب میں سوچتا ہوں کہ آج کی جنریشن کیاہے۔ یہ ارتقا کا عمل ہے تو انسان ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ سائنسی ترقی کی بات نہیں انسان کی عقلی نشونما کیوں نہیں ہو رہی۔ اب پیپسی پچاس روپے کی ملتی ہے تو پیپسی پینے والے کو اس کے پینے کی کوئی خوشی کیوں نہیں ہوتی۔ بچوں کی گیمز کمرے اور سکرینوں تک ہی محدود ہیں۔ جنس کا فرق اتنا واضح کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ ہزار روپے عیدی کی کوئی ویلیو کیوں نہیں رہی۔ کارٹون کدھر گئے اور ٹی وی پر سیاست کیوں چھا گئی۔ کیمبرج اور اے لیول انسان کی پہلی چوائس پر کیسے آئے۔ نئی نسل تاریک کمروں سے کیوں نہیں ڈرتی۔ استاد اور شاگرد میں دوستی کی حد کیا ہے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے میں لکھ نہیں سکتا مگر میں جنریشن گیپ کا جائزہ لوں تو سارے پہلو سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔
اس جنریشن کے پاس بھی لازمی کوئی جیسٹیفیکیشن ہوگی۔ وقت کا پہیئہ تیز ہوا تو سماجی و معاشی حالات اور بدامنی کے سبب ہم لوگ اپنے اپنے ڈبوں میں بند ہوتے چلے گئے، ہمارا بچہ میرے بچے میں بدل گیا، ہمارا محلہ صرف میرے گھر تک رہ گیا۔ باہر نہیں نکلو گے باہر خطرہ ہے، محلے کے بچوں میں نہیں اٹھو بیٹھو گے، وہ ہمارے اسٹینڈرڈ کے نہیں بلکہ گنوار ہیں۔ انکل "بیڈ ٹچ" کریں تو بتانا۔ نہیں فٹ بال نہیں کھیلنا چوٹ لگ جائے گی، ہاکی کون کھیلتا ہے اس زمانے میں۔ یہ لو وڈیو گیم، یہ لو ٹیبلٹ، یہ لو انٹرنیٹ۔ اس بار صرف اسی پرسنٹ نمبر آئے اگلی بار نوے پرسنٹ لائے تو موبائل ملے گا۔ کھیل کود میں وقت ضائع نہ کرو، یہ عمر زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ہے ورنہ پیچھے رہ جاؤ گے۔
جب پلے گراؤنڈز کا کوئی والی وارث نہ رہے تو وہ کچرے کے ڈمپنگ گراؤنڈ بنتے چلے گئے، خالی فلاحی پلاٹوں پر راتوں رات مساجد و مدارس نمودار ہوتے چلے گئے، دکانیں پھوڑوں کی طرح ابھرنے لگیں، بلڈرز ہر کھلی جگہ ڈکار لیے بنا ہڑپ کرتے چلے گئے۔ اسکول صرف کلاس رومز کی قطار کا نام ہوگیا۔ پلے گراؤنڈز صرف پرانے اسکولوں کے قصے کہانیوں میں رہ گئے۔
عدم تحفظ کا شکار ایک پوری نسل جب یونیورسٹیوں میں آئی تو یہ ایک وسیع دنیا تھی۔ ایک استاد کی حیثیت سے میں دو سال ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں اور باقی یونیورسٹیوں میں کسی نہ کسی کام یا کسی تقریب کے سلسلے میں جانا رہتا ہے۔ ہماری نئی نسل گھریلو مسائل کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ ایسے ایسے گھریلو مسائل ہیں کہ بیان نہیں کیئے جا سکتے۔ ڈپریشن سے چھٹکارے کے لئے ڈرگز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جن کو کوئی مسئلہ نہیں وہ کمپنی کی وجہ سے یا بطور فیشن "کول" لگنے کے لئے ڈرگز استعمال کرتے ہیں۔ چرس تو بہت عام اور معمولی بات ہے۔ چرس سے آگے جہان اور بھی ہیں۔۔
جس عمر میں اب نئی نسل "بریک اپ" کا سوگ مناتی ہے اس عمر میں ہمیں یہ فکر ہوا کرتی تھی کہ قلیل پاکٹ منی سے مہینہ بھر کیسے گزرے گا۔ فرینڈ شپ کی جگہ "بوائے فرینڈ" اور "گرل فرینڈ" جیسے الفاظ نے لے لی ہے۔
ہماری نئی نسل کے ڈپریشن کے سبب بہت سے مسائل ہیں جن کے زیرِ اثر تین ہی الفاظ ذہنوں میں سمائے ہیں اور یہی ان کی priority ہے۔۔ سیکس، ڈرگز اور ہینگ آوٹ۔۔ یونیورسٹیاں بچوں سے بھری ہوئی ہیں کسی بھی یونیورسٹی میں داخل ہو کر دیکھ لیں آپ کو لباس اور میک آپ سے لے کر حجاب کے نت نئے فیشن بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ بطور استاد میرا جتنا مشاہدہ ہے وہ یہی ہے کہ والدین کی لاپرواہی، توجہ اور وقت کی کمی نے نئی نسل کو ایسی غار میں دھکیل دیا ہے جس کے دھانے پر کوئی روشنی نہیں۔ پیسے کمانے کی دھن میں اولاد کا سودا کر لیا ہے اور ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔
کچی عمر کے ذہن اپنا برا بھلا کیا سوچ سکتے ہیں؟ جو جس راہ لگ جاتا ہے لگا رہتا ہے۔ نہ جانے ہم کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ جسمانی بیماری کے لئے جنرل فزیشن کو دکھانا جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے ماہر نفسیات کو دکھانا ہے۔